(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ کے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کے حکم کے 4 اپریل کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواست پر سماعت ہوئی، عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے منگل تک ملتوی کردی گئی اور سیاسی جماعتوں سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے۔
پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں3 رکنی خصوصی بینچ کیس پر سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر 3 رکنی بینچ کا حصہ تھے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ فنڈز اور سیکورٹی کا مسئلہ پہلے الیکشن کمیشن نے بتایا تھا، آج تو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا دیا ہے، نظر ثانی درخواست پر نوٹس جاری کر دیتے ہیں، الیکشن کمیشن کا مطالبہ تھا کہ انہیں فنڈز دیئے جائیں وہ الیکشن کروا دیتے ہیں، اب الیکشن کمیشن نیا پینڈورا باکس کھول رہا ہے، مرکزی کیس میں جو نکات نہیں اٹھائے گئے وہ اب کیسے اٹھائے جاسکتے ہیں، وفاقی حکومت کو نظرثانی میں آنا چاہیئے تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے جرائم کی فہرست میں 9 مئی کو اضافہ ہوا، گرفتاری لازم ہے: رانا ثناءاللہ
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے استفسار کیا کہ 14 مئی گزر چکا، آئین فوت ہو چکا، نگران حکومتیں اب غیر آئینی ہو چکی، عدالت اپنے فیصلے پر عمل کروائے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ ہتمی ہو جائے پھر عملدارآمد کرائیں گے، ملکی اثاثوں اور اداروں کو جلایا جا رہا ہے، باہر جو ہو رہا ہے اس پر عملدرآمد کون کروائے گا، باہر دیکھیں کیا ماحول ہے، وفاقی حکومت بے بس نظر آئی ہے لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں ، چار پانچ دن پہلے جو ہوا وہ اب پھر ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل بتائیں کیوں مذاکرات نہیں ہوئے، آپ کو مذاکرات کا راستہ دوبارہ دیکھنا چاہیے، آئین ہی جمہوریت کی بنیاد ہے، 90 دن میں انتخابات کروانا بنیادی معاملہ ہے، ہمیں سیاست کا نہیں پتہ اور نا ہی جاننا چاہتے ہیں، ہم یہاں عوام کے تحفظ اور آئین کی حفاظت کیلئے بیٹھیں ہیں، لوگوں کا تحفظ ہو گا تو لوگ خوش ہوں گے، معیشت کی حالت خراب ہو رہی ہے، اس وقت بال اٹارنی جنرل صاحب آپ کی کورٹ میں ہے، علی ظفر صاحب یہاں بتائیں گے اور اپنی قیادت کو آگاہ کریں گے، الیکشن کیلئے آپ سب کو ہائی مورال گراؤنڈ پیدا کرنا ہوگا، ایسے حالات میں الیکشن کیسے کروائے جا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم کے مظاہرین ریڈزون میں داخل
چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس دیئے کہ آئین پر عملدرآمد لازمی ہے، اس ماحول میں آئین پر عملدرآمد کیسے کرایا جائے؟ اٹارنی جنرل صاحب آپ مذاکرات دوبارہ کیوں شروع نہیں کرا سکتے۔ وکیل تحریک انصاف نے استفسار کیا کہ ہماری مذاکراتی ٹیم کے دو فریق گرفتار ہوچکے ہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت نے سنجیدگی سے مذاکرات میں حصہ لیا تھا، مذاکرات تحریک انصاف نے ختم کیے تھے۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ اب مذاکرات ختم کر کے بات آئین کی عملداری پر آگئی ہے۔جس پر اٹارنی جنرل نے معزز عدالت کو بتایا کہ میں ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے مذاکرات کی بات کی، مذاکرات بالکل ہونے چاہئیں، دونوں جانب سلجھے ہوئے لوگ ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین سیاسی حقوق کا ضامن ہے، ہمیں سیاسی معاملات میں نہیں جانا نہ ہی کچھ سننا چاہتے ہیں، امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہونگے اور کوئی حل نکل آئے گا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 2 مئی کو مذاکرات ختم کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کچھ ہوا تھا اچانک کہ جس سے مذاکرات ختم ہوئے؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ انتخابات کی تاریخ پر بات نہیں بن رہی تھی۔ اٹارنی جنرل نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ ایسے نہ کریں علی ظفر صاحب چیف جسٹس نے آپ کو کہا ہے کہ جو پچھلے ہفتے ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا، پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ پچھلے ہفتے نام کی جمہوری حکومت نے سابق وزیراعظم کو احاطہ عدالت سے گرفتار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ،پارلیمنٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجے :وزیر دفاع
اٹارنی جنرل نے بات نے وکیل پی ٹی آئی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ بھی دیکھیں کہ اس کے بعد کیا کیا ہوا ہے، گرفتاری کے معاملے کو عدالت نے درست قرار دیا تھا۔ چیف جسٹس نے پھر زور دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات دوبارہ شروع کریں، جو بیانیہ دونوں جانب سے بنایا جا رہا ہے اس کو حل کریں، علی ظفر درست کہہ رہے ہیں کہ بال حکومت کے کورٹ میں ہے، حکومت مذاکرات کی دعوت دے تو علی ظفر بھی اپنی قیادت سے بات کریں۔
موجودہ صورت حال سے متعلق جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ملک میں کاروبار کا پہیہ رک گیا ہے، موٹروے پر سفر کیا کچھ نظر نہیں آیا کیونکہ لوگوں کا کاروبار ختم ہوچکا ہے، سپریم کورٹ پاکستانی عوام کے حقوق کے دفاع کیلئے موجود ہے، بنیادی حقوق کے نفاذ کیلئے امن ہونا ضروری ہے، معیشت منجمند ہے، لوگ باہر نہیں نکل رہے چپ ہو کر بیٹھ گئے ہیں، باہر شدید پرتشدد ماحول ہے، اگر تفریق زدہ معاشرہ ہوگا تو انتخابات کے نتائج کون قبول کرے گا؟ میرا پیغام ہے کہ دونوں جانب سے اخلاقیات کے اعلی معیار کو قائم کیا جائے، آپ کوکیا لگتا ہے عدالت بھول گئی ہے کہ 90 دن کی معیاد آئین کی بنیاد ہے؟ حکومت نے الیکشن کمیشن کی طرح کی باتیں کیں لیکن عدالت سے رجوع نہیں کیا، آئین میں 90 دن ہیں تو 90 ہیں، 14 مئی کا حکم تھا تو 14 مئی کو ہی پر عمل ہونا تھا، عدالت کو اپنے کنڈکٹ پر مطمئن کریں، دونوں طرف میچور سیاسی جماعتیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پل پل بدلتا موسم،محکمہ موسمیات کی اہم پیشگوئی سامنے آ گئی
عدالت کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں، پنجاب اور کے پی کے صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری، سیکرٹری سپریم بار ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار اور وکلا سپریم کورٹ کیساتھ کھڑے ہیں۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو اپنے فیصلے میں حکم دیا تھا کہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات شفاف، غیرجانبدارانہ اور قانون کے مطابق کرائے جائیں، وفاقی حکومت 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپےکا فنڈ جاری کرے، الیکشن کمیشن 11 اپریل کو سپریم کورٹ میں فنڈ مہیا کرنےکی رپورٹ جمع کرائے، الیکشن کمیشن فنڈ کی رپورٹ بینچ ممبران کو چیمبر میں جمع کرائے۔