(ملک اشرف) پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی نظربندی کیخلاف دائر درخواستوں پر لاہور ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی جہاں جسٹس علی ضیاء باجوہ نے ریمارکس سنے۔
عدالت میں ڈپٹی کمشنر رافیہ حیدر اور ایڈیشل ایڈووکیٹ جنرل غلام سرور نہنگ پیش ہوئے۔
اس موقع پر جسٹس علی ضیاء نے نظربند افراد کیخلاف مقدمات کی تفصیل طلب کی اور کہا کہ اگر کسی نے جرم کیا، کسی کو انگلی بھی لگی ہے تو ملزم کیخلاف مقدمات درج کریں، جرم کرنے والے کا پرچہ دینے کے بعد اس کا وارنٹ لیں، یہ وجوہات کے بغیر نظر بند کیوں کیا جا رہا ہے؟
جسٹس علی ضیاء باجوہ نے مزید سوال کیا کہ نظربندی کن گراؤنڈز پر کی گئی؟
جس کے جواب میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ یہ افراد جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: عسکری ٹاور حملہ، عمر سرفراز چیمہ کا جسمانی ریماںڈ نہ ملنے کا اقدام چیلنج
اس پر جسٹس علی ضیاء نے پھے کہا ’میرا سوال ہے کہ نظر بندی کی وجوہات کیا ہیں؟
جس کے جواب میں ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ان افراد نے فائرنگ کی، کئی پولیس والے زخمی ہوئے، سرکاری گاڑیاں جلائی گئیں۔
جسٹس علی ضیاء نے ڈی سی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میڈم آپ بتائیں آ پ کے پاس نظر بندی کی کیا گراؤنڈز ہیں؟ جس کے جواب میں ڈی سی رافیہ حیدر نے کہا کہ اس کے متعلق رپورٹ پیش کردی ہے۔
جسٹس علی ضیاء کی جانب سے پھر سوال کیا گیا کہ آپ نے نظر بندی کی وجوہات درخواست گزاروں کو کیوں نہیں دیں؟ تو ڈی سی رافیہ حیدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے وجوہات کیلئے اپلائی ہی نہیں کیا۔ اس جواب پر عدالت کی جانب سے شدید برہمی کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ ڈی سی صاحبہ شاید قانون سے ہی لاعلم ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: سابقہ ایم این اےعالیہ حمزہ بازیابی کیلئےدائردرخواست پرسماعت
مزید کہا گیا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ نظربندی کی وجوہات کیلئے اپلائی کرنا پڑے گا۔
جسٹس علی ضیاء نے مزید کہا کہ اس کیخلاف جو مقدمات ہیں سی سی پی او آفس سے اس کا ریکارڈ منگوالیں اور ڈی آئی جی آپریشنز کو ہی بلوا لیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر ڈی آئی جی آپریشنز کو طلب نہ کیا جائے۔
اس پر عدالت نے کیس کی سماعت کچھ دیر کیلئے ملتوی کردی۔