(فرخ احمد)سینئر صحافی اور معروف تجزیہ کار سلیم بخاری نے پی ٹی آئی کی 24 نومبر کواحتجاج کی کال،پارٹی میں اختلافات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب جبکہ عمران خان جیل میں ہیں پارٹی کی صورتحال تبدیل ہو چکی ہے ، پارٹی دھڑے بندی اور شکست و ریخت کا شکار ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔مختلف دھڑے اپنی مرضی سے پارٹی سیاست میں ملوث ہیں، پارٹی خاص طور پر جن مضبوط دھڑوں میں تقسیم ہے ان میں سینئر سیاستدانوں کا دھڑا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کا احتجاج پارٹی کیلئے کسی طرح سے بھی فائدہ مند نہیں ہے بلکہ الٹا اس کا پارٹی کو نقصان ہو گا، ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اس طرح کے جلسے جلوس سے بانی پی ٹی آئی کو جیل سے رہائی دلانا تو درکنار ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
جبکہ دوسرا دھڑا اس نظریے کے الٹ احتجاج کی بے تکی اور غیر دانشمندانہ روش کو اپنائے ہوئے ہے اور وہ بانی پی ٹی آئی کو جیل میں غلط مشورے دے کر احتجاجی سیاست کی جانب لیکر جانا چاہتے ہیں ان کو نہ تو زمینی حقائق کا ادراک ہے اور نہ ہی حالات کا اندازہ ہے کہ وہ اس طریقے سے پارٹی اور بانی پی ٹی آئی کیلئے کس قدر مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔
خاص طور پر وہ دھڑا جو کہ حلقے کی سیاست کرتا ہے جن کا اپنے حلقے میں کوئی اثر و رسوخ ہے وہ اپنے کارکنوں اور ووٹرز کے حالات سے باخبر رہتے ہیں ان کو اپنے عوام کی مشکلات کا بھی ادراک کرنا ہوتا ہے آخر کب تک اپنے ووٹرز کو احتجاجی سیاست کی بھینٹ چڑھائیں۔اس دھڑے کے سیاستدان کھل کا اپنے خیالات کا اظہار اس لیے بھی نہیں کرتے کیوں کہ انہیں اپنے ہی سوشل میڈیا سے اپنی عزت کو بھی محفوظ کرنا ہے کوئی بھی ایم این اے یا ایم پی اے کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ وہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے گالم گلوچ بریگیڈ کے ہتھے چڑھ کر اپنی عزت کا جنازہ نکالنے کا موقع دے۔
’کیا پنجاب کی حکومت پی ٹی آئی کے احتجاج کو روکنے کی کوشش کرے گی‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سلیم بخار ی نے کہا کہ رونا تو یہی ہے کہ یہ صحیح تصویر دکھا ہی نہیں رہے، ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت تو تب احتجاج کو روکے گی جب لوگ نکلیں گے، انہوں نے پچھلے دو جلسوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لاہور اور سنگجانی کا جلسہ گواہ ہے اس میں پنجاب کے لوگ نہیں تھے بلکہ یہ وہ لوگ تھے جن کو کے پی حکومت لے کر آئی تھی۔سینئر صحافی نے کہا کہ ان کو ایسا لگ رہا ہے کہ پارٹی کی سینئر قیادت کی طرف سے جس قسم کے رویے کا اظہار کیا جارہا ہے 24 نومبر کا احتجاج منسوخ کر دیا جائے گا۔
کیاہندوستان آئی سی سی معاہدہ سے ہی پھرگیا،معروف تجزیہ کار نے کہا کہ چیمپینز ٹرافی کے حوالے سے کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جو کہ نئی ہو،بھارت نے 2023 میں آئی سی سی کے ساتھ میزبانی کا معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے مطابق چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی پاکستان کے حصے میں آئی تھی اس وقت بھارتی کرکٹ بورڈ کو چاہیے تھا کہ پہلے اپنی حکومت سے اجازت لے لیتی تاکہ اب اس قسم کے ہتھکنڈے نہ کرنے پڑتے۔اب جبکہ ستمبر میں پاکستان آئی سی سی اور تمام ٹیموں کے ممالک کو سکیورٹی بریفنگ دے چکا ہے اور کلیئرنس بھی لے چکا ہے اب جبکہ دو ماہ کا وقت رہ گیا ہے بھارت کو ا یسا رویہ زیب نہیں دیتا۔
حزب اللہ کااسرائیلی فوج کے ہیڈکوارٹرز پر حملے کادعویٰ ، اس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے سلیم بخاری صاحب نے کہاکہ اسرائیل کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ کبھی بھی اپنا نقصان نہیں بتاتا نہ ہی کبھی اس نےاپنےفوجیوں کر لاشیں دکھائی ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ بات ماننے والی نہیں کہ ایران یا حزب اللہ کی جانب سے فائر کیے وہ فضا میں ہی تباہ کر دیئے گئے یہ کیسے ممکن ہے کیا انہوں نے نقصان ہی نہیں کیا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایران اور حزب اللہ نے نیتن یاہو کا دفتر ہو یا اسرائیل کے ہیڈ کوارٹرکو نقصان تو پہنچایا ہے جس وجہ سے یاہو کو اپنے بیٹے کی شادی غیر معینہ مدت کیلئے منسوخ کرنا پڑی اور اپنا آفس بھی منتقل کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا لبنان ایک ایسی ہڈی ہے جو کہ اسرائیل کے حلق میں پھنسی ہوئی ہے جس کو وہ نہ نگل سکتا ہے اور نہ ہی اُگل سکتا ہے اور حزب اللہ اسرائیل کیلئے ایک ڈراونا خواب بنتا جا رہا ہے۔