فیروزنظامی:سحرانگیزاورلازوال دھنوں کے خالق کی آج 49ویں برسی
محمد رفیع باقاعدہ شاگرد تھے، بطور موسیقارپہلی فلم ”وشواس“ 1943ءمیں ریلیز ہوئی
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ایم وقار) بے شُمار لازوال دھنوں کے خالق اوربرصغیر پاک وہند کے عظیم موسیقار فیروز نظامی کواس دُنیاسے رُخصت ہوئے49برس بیت چکے ہیں مگر ان کی ترتیب دی ہوئی دُھنیں آج بھی ان کی موجودگی کااحساس دلاتی ہیں اور مداحوں کے دلوں میں انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
فیروزنظامی کلاسیکل سے لے کر مغربی موسیقی سمیت کئی طرز کی دُھنیں بنانے میں عبور رکھتے تھے،بے شُمار لازوال گیت ان کے کریڈٹ پرہیں جن میں چاندنی راتیں،تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے،یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے،روتے ہیں چَھم چَھم نین،مُنڈیا سیالکوٹیا،چَن دیا ٹوٹیا وے دلاں دیا کھوٹیا اوردیگر شامل ہیں۔
10 نومبر1910ءکولاہورکے علاقے اندرون بھاٹی گیٹ میں پیداہونے والے فیروزنظامی چار بھائی تھے اور چاروں بھائیوں نے اپنے اپنے شعبے میں بڑا نام کمایا،بڑے بھائی سراج نظامی صحافت اور شاعری سے منسلک تھے، چھوٹے بھائی سلطان ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھے، تیسرے بھائی نذر محمد پاکستان کرکٹ ٹیم کے ممتاز کھلاڑی تھے اورآگے چل کر ان کے بیٹے مدثرنذر نے بھی کرکٹ میں بہت نام کمایا۔
فیروزنظامی اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے بی اے آنرز کرنے کے بعد کیرانہ گھرانے کے نامور گلوکار عبدالوحید خان کے باقاعدہ شاگرد ہو گئے تھے، کیرانہ گائیکی کے اصول و ضوابط اور رموزسیکھنے کے بعد اُستاد سردار خان دہلی والے کے شاگرد ہو ئے،اس کے ساتھ ساتھ لاہور میں جمنے والی موسیقی کی ”بیٹھکوں“ سے بھی فیض حاصل کرتے رہے کیونکہ اس وقت لاہور شہر میں موسیقی کی کئی ”بیٹھکیں“ بہت مشہورہوا کرتی تھیں جن میں اُستاد برکت علی خان،پنڈٹ جیون لال مٹّو،سیّد شبیر حسین شاہ،خورشید بٹ، اُستاد سردار خان،بابو معراج دین اور جی اے فاروق کی بیٹھکیں زیادہ معروف تھیں۔
فیروزنظامی نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایک اچھّی میوزک سوسائٹی تشکیل دی تھی جسے ایم ڈی تاثیر،پروفیسرسراج الدین آذر، محمود نظامی اورفیض احمد فیض جیسے لوگوں کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔
فیروز نظامی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد آل انڈیا ریڈیو لاہور کے ساتھ بطور پروگرام پروڈیوسر وابستہ ہوگئے،پھرآل انڈیا ریڈیو دہلی چلے گئے جہاں خواجہ خورشید انور اورکرشن چندرجیسے نابغہ روزگار بھی ان کے ساتھی تھے،یہ تینوں حضرات کچھ عرصہ بعد ریڈیو چھوڑ کر ممبئی چلے گئے اور وہاں فلموں کی موسیقی ترتیب دینا شروع کر دی۔
فیروزنظامی کی بطور موسیقارپہلی فلم ”وشواس“ 1943ءمیں ریلیز ہوئی،اگلے برس ان کی دوسری فلم ”بڑی بات“ریلیز ہوئی جونہ صرف کامیاب رہی بلکہ گانوں کوبھی بہت پذیرائی ملی،1946ءمیں فلم ساز اور ہدایت کارایس ایم یوسف کی فلم ”نیک پروین“ نے فیروز نظامی کی موسیقی کو پہلی بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا جس کی ایک نعت ”تیری ذات پاک ہے اے خدا“ بھی بہت مقبول ہوئی تھی۔
1946ءمیں فلم ساز اور ڈائریکٹر شوکت حسین رضوی نے فلم”جگنو“ شروع کی جو نورجہاں اور دلیپ کمار کی ایک ساتھ پہلی اورآخری فلم تھی،اس فلم نے فیروز نظامی کو صحیح معنوں میں شُہرت دی کیونکہ اس کے سارے گانے ہی مقبول ہوئے تھے،دلیپ کمار کی پہلی فلم”جوار بھاٹا“اس وقت تک اگرچہ ریلیز ہو چکی تھی لیکن اتنی کامیاب نہیں ہوئی تھی اور”جگنو“نے دلیپ کمار کو دنوں میں مقبول فنکاروں کی صف میں لا کھڑا کیاتھا،اسی فلم میں محمد رفیع اور نورجہاں نے ایک ڈوئٹ ”یہاں بدلا وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے“گایا جو ان دونوں کا ایک ساتھ پہلا اور آخری گانا ثابت ہوا۔
محمد رفیع فیروز نظامی کے باقاعدہ شاگرد بھی تھے، 1943ءسے 1947ءتک یعنی چار برسوں میں فیروز نظامی نے وہاں10 فلموں کی موسیقی دی،1947ءفیروز نظامی کا ہندوستان میں آخری سال ثابت ہوا کیونکہ وہ شوکت حسین رضوی، نورجہاں،انورکمال پاشا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ ہندوستان میں سب کچھ چھوڑ کرپاکستان آ گئے اور یہاں نئے سِرے سے فلم انڈسٹری کی بنیاد رکھی،1950ءمیں فیروز نظامی نے یہاں اپنی پہلی فلم ”ہماری بستی“ کی موسیقی دی جو کامیابی حاصل نہ کر سکی لیکن اگلے سال شوکت حسین رضوی کی پنجابی فلم”چن وے“ ریلیز ہوئی جس کی ڈائریکٹر کے طور پر شوکت حسین رضوی نے نورجہاں کا نام دیا تھا،”چَن وے“ کی موسیقی نے ہر طرف دھوم مچا دی،اس کا ایک گانا”تیرے مُکھڑے دا کالا کالا تِل وے“ کے ریکارڈ تو بلیک میں فروخت ہوتے رہے تھے،اس کے بعد فیروزنظامی نے دوپٹہ، قسمت، راز،سولہ آنے اور منزل جیسی فلموں کی بھی موسیقی دی۔
فلمی موسیقی کے ساتھ ساتھ فیروز نظامی ریڈیو پاکستان کیلئے کلاسیکی موسیقی کی نشریات میں بھی حصّہ لیتے رہے، موسیقی پر انگریزی اخبار”پاکستان ٹائمز“میں کالم بھی لکھتے رہے،پانچ کتابیں بھی لکھیں جن میں فن موسیقی پر کتاب” اسرار موسیقی“کوموسیقی کے حوالے سے ایک مُعتبر کتاب تسلیم کیا جاتا ہے،اس کے علاوہ دو مرتبہ ثقافتی طائفے کے لیڈر کی حیثیت سے افغانستان گئے،1963ءمیں ایران کے شہر شیراز میں ہونے والے انٹرنیشنل میوزک سیمینار میں حکومتی وفد کی قیادت کی،آخری سالوں میں صوفی اِزم اورروحانیت کی طرف رُجحان کے بعدایک کتاب”سرچشمہ حیات“ لکھی،الحمراءآرٹس کونسل کی میوزک اکیڈمی کے پرنسپل بھی رہے،1975ءمیں اپنے انتقال سے چند روز قبل پنجاب آرٹس کونسل میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر ان کی تعیناتی ہوئی تھی،وہ 15نومبر1975ء کولاہورمیں انتقال کرگئے تھے۔