سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے فیصلے کے بعد ن لیگی قائد میاں نواز شریف کے سیاسی مستقبل پر چھائے کالے بادل مزید گہرےہوتے دکھائی دے رہے ہیں ، نواز شریف لندن سے سعودی عرب پہنچ چکے ہیں ،سعودی عرب سے براستہ دبئی پاکستان آمد کا پلان فائنل ہو چکا ہے جبکہ لیگی قیادت اور کارکنان اپنے قائد کے استقبال کی بھر پور تیاریاں بھی کر رہے ہیں مگر اب تک اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ نواز شریف پاکستان آئیں گے اور گرفتار نہیں ہونگے ساتھ ہی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے فیصلے کے بعد ان کی نااہلی کا داغ بھی آسانی سے دھلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا کہ کیا مائنس ون کرتے کرتے مائنس ٹو ہونے جارہا ہے؟کیا نواز شریف سیاست میں حصہ لے پائیں گے؟کیا نواز شریف کی نااہلی ختم ہوسکے گی؟اور وہ انتخابات لڑنے کے اہل ہوں گے یا پھر چیئرمین تحریک انصاف اور لیگی قائد دونوں ہی آئندہ انتخابات میں بارہویں کھلاڑی کی طرح گراؤنڈ سے باہر بیٹھے رہیں گے۔سوال سنجیدہ ہیں لیکن وقت کے ساتھ حالات بدلنے کا پتا نہیں چلتا کب کیا ہوجائے؟ کیا کسی نے سوچا تھا کہ پاکستان کے مقبول لیڈر عمران خان اقتدار سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے یا پھر وہ جیل جائیں گے لیکن ایسا ہوا۔
ایسا کچھ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے ن لیگ کے قائد نواز شریف کے ساتھ بھی ہوا،نواز شریف بار بار اقتدار میں آتے ہیں اور انہیں بار بار اقتدار سے نکال دیا جاتا ہے،جب سے وہ سیاست میں ہیں تب سے کرپشن کے مقدمات ان کا پیچھا کررہے ہیں،جب وہ حکمرانی کی مسند پر فائز ہوتے ہیں تو مقدمات کی فائلیں بند کردی جاتی ہیں ،جب وہ اقتدار میں قدم جمانے لگتے ہیں تو پھر سے وہی فائلیں پھر سے الماریوں سے نکل کر ججوں کی میز پر آجاتی ہیں ۔
دیکھیں نواز شریف جنرل ضیا الحق کے دور میں سیاست سے روشناس ہوئے۔ انہی کے زیر سایہ تربیت ہوئی۔ اس دور میں لمبے عرصے تک پنجاب حکومت میں شامل رہے۔ کچھ عرصہ پنجاب کی صوبائی کونسل کا حصہ رہنے کے بعد 1981 میں وزیر خزانہ پنجاب بن گئے۔ آمریت کے زیرِ سایہ 1985 میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں قومی اور صوبائی نشستوں پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔
9 اپریل 1985 کو وزیراعلیٰ پنجاب بنے، 31 مئی 1988 کو جنرل ضیاء نے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا تاہم میاں صاحب کو بطور نگران وزیراعلیٰ برقرار رکھا۔ جنرل ضیاء نے ایک بار نواز شریف کو اپنی عمر لگ جانے کی بھی دعا دی۔دسمبر 1988 میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کےلیے آئی جے آئی بنی۔ پیپلز پارٹی تو نہ ہاری لیکن پنجاب کی وزارت اعلیٰ ایک بار پھر میاں صاحب کے حصے میں آگئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو 1990 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پہلی بار میاں صاحب وزیراعظم بن گئے۔ تاہم اپنی پانچ سال کی مدت پوری نہ کرسکے اور انہیں اس وقت کے صدر نے ان کے عہدے سے فارغ کردیا۔ اگرچہ ملک کی عدالتِ عظمیٰ نے آئینی مقدمے کے بعد عہدے پر بحال کردیا لیکن جولائی 1993 میں انہیں صدر کے ساتھ اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔
ضرورپڑھیں:الیکشن نہ ہوئے تو کیا ہوگا؟
1997 میں ایک بار پھر الیکشن میں کامیاب ہوکر مسند اقتدار پر براجمان ہوئے لیکن یہ بہت عارضی ثابت ہوا اور دو سال بعد ہی فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے طیارہ سازش کیس کا بہانہ بنا کر چلتا کیا۔ اس بار نواز شریف کی بڑی غلطی فوج سے پنگا تھا۔ اکتوبر 1999 میں نواز شریف نے اس وقت کے فوج کے سربراہ پرویز مشرف کو ہٹا کر نئے فوجی سربراہ کو تعینات کرنے کی کوشش کی۔
کچھ عرصہ جیل میں رکھا گیا، مقدمات چلے اور فوج کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے بعد سعودی عرب چلے گئے۔ 2006 میں میثاق جمہوریت پر بے نظیر بھٹو سے مل کر دستخط کیے اور فوجی حکومت کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا۔ 23 اگست 2007 کو عدالت عظمٰی نے شریف خاندان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی وطن واپسی پر حکومتی اعتراض رد کرتے ہوئے پورے خاندان کو وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد نواز شریف اپنے خاندان کے ہمراہ سعودی عرب کے پرویز مشرف پر دباؤ کے نتیجے میں 25 نومبر 2007 کو لاہور پہنچ گئے۔
2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے واضح اکثریت حاصل کی۔ اس بناء پر وہ تیسری بار وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔ نواز شریف تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصا ف کےلیے متنازعہ بن گئے۔ عمران خان نے تین سال تک دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹا اور چین نہیں لینے دیا۔ نواز شریف حکومت کی بدقسمتی تھی کہ اسی دورانیے میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آگیا جس میں 14 افراد قتل اور 90 سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ یہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکن تھے۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو انصاف دلانے کےلیے انقلاب مارچ کیا اور عمران خان نے دھاندلی کے خلاف لانگ مارچ۔ شہر اقتدار میں دھرنا ہوا، آرمی چیف کی مداخلت پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سمیت 9 افراد کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان کے یوسف اور برادرانِ یوسف
یہ معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ پاناما لیکس کے ذریعے شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کا پول کھل گیا۔ اپوزیشن نے خوب واویلا کیا، وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں معاملہ حل کرنے کا اعلان کیا لیکن حکومتی سرد مہری سے ٹی او آرز پر اتفاق نہ ہوسکا اور معاملہ عدالت تک جاپہنچا۔ نوازشریف کو پاناما کیس میں پہلے صرف 2 ججوں نے نااہل قرار دیا اور انہیں موقع دیا کہ وہ اپنے جرائم مان لیں، لیکن نوازشریف نے جے آئی ٹی میں جانے کو ترجیح دی۔
وہاں سے ان کی کرپشن کی ہوشربا داستان سامنے آگئی۔ پھر انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جہاں سے وہ جمعہ کے مبارک دن پانچ صفر سے نااہل قرار پائے۔ پھر وہ اپیل میں گئے اور ایک اور جمعہ کے مبارک دن اپیل میں بھی نااہل قرار دیئے گئے۔ پھر انہوں نے پارلیمنٹ سے ترمیم منظور کروا کر پارٹی صدارت اپنے پاس رکھنے کی کوشش کی اور سپریم کورٹ نے انہیں پارٹی صدارت سے بھی نااہل قرار دے ڈالا۔
عام انتخابات سے قبل لندن سے لاہور آئے، ایئر پورٹ سے اترتے ہی انہیں احتساب عدالت سے مجرم قرار دیئے جانے کے بعد جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر بھی ان کے ساتھ قید رہے، قید کے دوران ہی اہلیہ کلثوم نواز انتقال کرگئیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے ضمانت پر رہا کردیا۔
تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لیے لاہور سے پارلیمانی الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اپنی آبادی اور قومی اسمبلی میں زیادہ نشستوں کی وجہ سے یہ صوبہ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے لیے بہت اہم ہے۔ اس صوبہ میں مسلم لیگ (ن) کی گرفت مضبوط ہے۔ جہاں تک صوبے میں مقبولیت کا تعلق ہے تو پی ٹی آئی دوسرے نمبر پر ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی، پی ایم ایل (این) اور پی ٹی آئی کی نسبت کمزور ہے۔ آئندہ بھی پی ایم ایل (ن) اور پی ٹی آئی پنجاب میں بالخصوص اور ملک میں بالعموم مضبوط سیاسی حریف ہوں گی۔
معاملہ پھر وہی ہے کہ ایک بار پھر قسمت نواز شریف کا ساتھ دیتی ہے یا نہیں،اس وقت تین جماعتوں کے سربراہ عدالتوں سے نااہل کی سزا بھگت رہے ہیں ۔اگر کمرہ عدالت سے باہر’معاملات‘طے پا جاتے ہیں تو کمرہ عدالت کا ماحول بھی بدل جائے گا،قانون بھی اپنا راستہ بنالے گا ،اگر ایسا نہیں ہوتا تو سیاست کے تین بڑے کھلاڑی انتخابی سیاست سے باہر میدان میں دوڑتے ’گھوڑوں‘کی ریس دیکھیں گے۔
نوٹ : تحریر بلاگر کے ذاتی خیالات ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ