(انورعباس)شنگھائی تعاون تنظیم سربراہ اجلاس،رکن ممالک کا غیر امتیازی اور شفاف تجارتی نظام کے قیام کی ضرورت پر زور،ایس سی او تنظیم کا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا،ون ارتھ ، ون فیملی اور ون فیوچر پر زور،اعلامیہ میں فورم نے یکطرفہ تجارتی پابندیاں لگانے کی مخالفت کر دی، اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ یکطرفہ پابندیاں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کیخلاف ہیں،رکن ملکوں کے درمیان8دستاویزات پر دستخط،ایس سی او سربراہان حکومت کی صدارت روس کے سپرد،،آئندہ اجلاس کی 2025 میں روس میزبانی کرے گا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے 23 سربراہان حکومت اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا،اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا 23واں سربراہی (وزراء اعظم) اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا،ایس سی او ممالک کا ون ارتھ ۔ون فیملی اور ون فیوچر پر زور دیا گیا ،فورم نے غیر امتیازی اور شفاف تجارتی نظام کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔
مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ فورم نے یکطرفہ تجارتی پابندیاں لگائے جانے کی مخالفت کی، یکطرفہ پابندیاں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کے خلاف ہیں،پاکستان، کرغیزستان، بیلاروس ، قازقستان، روس اور ازبکستان نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انی شی ایٹو کی حمایت کی،فورم کی یورپ اور ایشیاء کے مابین بہتر اقتصادی اشتراک کی ضرورت پر زور دیا،گرین ڈویلپمنٹ، ڈیجیٹل اکانومی، تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی کے شعبوں میں رکن ممالک کے استعداد کار بڑھانے پر زور، رکن ممالک میں جاری سرمایہ کاری منصوبوں کے لئے ڈیٹا بینک بنانے کی تجویز پر زوردیا گیا ہے۔
ایس سی او سربراہان حکومت کی صدارت روس کے سپرد کر دی گئی ۔آئندہ اجلاس کی 2025 میں روس میزبانی کرے گا ۔
اس سے قبل جناح کنونشن سینٹر پہنچنے والے مہمانوں کا وزیر اعظم شہباز شریف نے استقبال کیا ،ایس سی او سیکریٹری جنرل، ایران کے وزیرصنعت سید محمد اتابک، منگولیا کے وزیراعظم ایون اردین، بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر، ترکمانستان کے وزیر خارجہ راشد میر یدوف بھی کنونشن سینٹر اسلام آباد پہنچ گئے، وزیراعظم شہباز شریف نے ان کا استقبال کیا،اس کے بعد قازقستان کے وزیراعظم اولژاس بیک تینوف بھی کانفرنس ہال پہنچ گئے۔
وزیراعظم شہباز شریف جناح کنونشن سینٹر ، اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ کے 23 ویں اجلاس کی صدارت کریں گے،ایس سی او اجلاس کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور دارالخلافہ کو دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں چین کے وزیراعظم لی چیانگ، روس کے وزیراعظم میخائل مشوستن، تاجکستان کے وزیراعظم خیر رسول زادہ، کرغزستان کے وزیراعظم زاپاروف اکیل بیگ، بیلا روس کے وزیراعظم رومان گولوف چینکو، قازقستان کے وزیراعظم اولڑاس بینکتینوف، تاجکستان کے وزیراعظم کوہر رسول زادہ اور ازبکستان کے وزیراعظم عبد اللہ ارپیوف شریک ہوں گے،اس کے علاوہ ایران کے نائب صدر محمد عارف اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر بھی ایس سی او کانفرنس میں شریک ہیں جبکہ منگولیا مبصر ملک کے طور پر شریک ہے جس کی نمائندگی منگولین وزیراعظم کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم کا خطاب
وزیر اعظم نے ایس سی او اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے معزز مہمانوں کو دارالحکومت اسلام آباد میں خوش آمدید کہتے ہوئے انتہائی خوشی محسوس ہو رہی ہے، ہم سربراہان مملکت کی ایس سی او کونسل کی شاندار تقریب کی میزبانی کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں جو دنیا کی 40فیصد آبادی کی آواز تصور کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کی یہاں موجودگی ہمارے عوام کی امنگوں پر پورا اترنے کے ہمارے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتی ہے تاکہ ہم ایس سی او خطے کی پائیدار ترقی اور خوشحالی کے لیے مجموعی سیکیورٹی اور دوطرفہ مفاد پر مبنی تعاون کو فروغ دے سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کی میٹنگ ہماری متنوع قوم کے درمیان ہمارے تعلقات اور تعاون کو مضبوط کرنے کا ایک اور ثبوت ہے جہاں ہم مل کر سماجی معاشتی ترقی، علاقائی امن و استحکام اور اپنے شہریوں معیار زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ آئیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے بہترین آئیڈیاز اور بہترین اقدامات کے اشتراک اور ٹھوس اقدامات مرتب کرنے کے لیے استعمال کریں جو ہماری معیشتوں اور معاشرے کے لیے سودمند ثابت ہوں۔
واضح رہے کہ پاکستان اِس وقت میزبانی کا گڑھ بن چکا ہے ، شہر اقتدار میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم اجلاس ہورہا ہے جس میں 8 ممالک کی اعلیٰ شخصیات شامل ہیں۔پاکستان میں 27 سال بعد اس سطح کے ایونٹ کے ہونے سے واضح ہورہا ہے کہ پاکستان ایک امن پسند اور محفوظ ملک ہے جو اِس طرز کے بڑے ایونٹ کی میزبانی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اب شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کا پاکستان میں ہونا کامیاب خارجہ پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔
یہ اجلاس پاکستان کیلئے معاشی اور سفارتی اور سیکیورٹی کے لحاظ سے اہمیت کا حامل تصور کیا جارہا ہے۔درحقیقت پاکستان کے لیے یہ اجلاس ایک منفرد سفارتی موقع ہے ۔خصوصی طور پر ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے ممالک اپنے اتحادی اور اسٹریٹجک حکمت عملی تبدیل کررہے ہیں۔ چین کا بڑھتا عالمی اثرورسوخ، روس کا ایشیا کی جانب بڑھتا جھکاؤ اور وسطی ایشیا کی بڑھتی ہوئی اہمیت، پاکستان کو موقع فراہم کرتی ہے کہ ایس سی او کے ذریعے عالمی سطح پر خود کو ثابت کرے۔شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کے لیے قومی سلامتی کے مسائل کو بھی حل کرنے کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے اندرونی سیکیورٹی مسائل کا سامنا کرتا رہا ہے۔ ایسے میں ایس سی او کا علاقائی انسدادِ دہشت گردی پر کام کرنے والا فورم، پاکستان کو سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے علاقائی قوتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے ایک قابل قدر موقع فراہم کرتا ہے۔ پھر اِسی طرح ایس سی او جیسے کثیرالجہتی پلیٹ فارم میں متحرک کردار ادا کرکے پاکستان اقتصادی فوائد اور سفارتی سرمایہ دونوں حاصل کرسکتا ہے۔
پاکستان کو اس وقت سنگین معاشی چیلنجز بھی درپیش ہیں ۔ ملکی معیشت آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے قرضوں کے سہارے چل رہی ہے۔یعنی ایک طرح سے معیشت مفلوج ہے جس کی وجہ سے ملک کو نئے معاشی شراکت داروں کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے میں ایس سی او کانفرنس میں شریک ممالک پاکستان کیلئے معاشی اعتبار سے فائدے مند ثابت ہوسکتے ہیں ۔پاکستان اِن ممالک کے ذریعے اپنی برآمدات اور سرمایہ کاری کو تقویت دے سکتا ہے ۔جس کے بعد پاکستان کی معیشت قرضوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے ۔ایس آئی ایف سی کے تحت پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے دیگر ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کو بڑھا سکتا ہے ۔ جیسا کہ ابھی وزیر اعظم شہباز شریف کے چینی وزیر اعظم کے ساتھ 13 شعباجات میں ایم اوز سائن ہوئے جو کہ پاکستان کی معیشت کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ہے ۔کہنے کا مقصد صرف اِتنا ہے کہ یہ اجلاس پاکستان کو معاشی طور پر خود کفیل ہونے کا ذریعہ بن سکتا ہے اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی اِس اجلاس کو معاشی اعتبار سے اہمیت کا حامل تصور کرتے ہیں ۔دراصل چینی وزیراعظم لی چیانگ کے اعزاز میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے ظہرانہ دیا۔
ضرورپڑھیں:بلاول بھٹو اورمولانا فضل الرحمان آج لاہور میں نوازشریف سے ملاقات کریں گے
ظہرانے کی دعوت میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔اِس موقع پر صحافیوں نے آرمی چیف سے پوچھا کہ ایس سی او کانفرنس سے آپ کیا توقعات رکھتے ہیں؟جس پر آرمی چیف نے جواب دیا کہ ہمارا ایجنڈا صرف پاکستان ہے ہم صرف پاکستان کو دیکھ رہے ہیں اور اسی کی کامیابی چاہتے ہیں۔اب آرمی چیف کے ساتھ ساتھ کاروباری شخصیات شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے ذریعے ملک کی معیشت میں استحکام کے لیے پر امید ہیں۔لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں ابوزر شاد نے ایک بیان میں کہا کہ ایس سی او اجلاس عالمی شراکت داروں خاص طور پر چین کے ساتھ پاکستان کے تجارتی واقتصادی تعلقات مضبوط کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔پھر اِسی طرح فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عاطف اکرام شیخ کہتے ہیں کہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ اور ایس سی او سربراہی اجلاس قومی معیشت کے لیے حقیقی گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں۔