(24 نیوز)حکومت کی بڑی کامیابی،نمبر پورے؟مولانا فضل الرحمان بھی مان گئے۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اہم آئینی ترامیم پر حکومت اور اِس کے اتحادی ایک پیچ پر آچکے ہیں ۔اِس اہم معاملے پر ایم کیو ایم کو حکومتی جماعت نے منانے کی کوشش کی گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف سے ایم کیو ایم کے وفد نے ملاقات کی۔ پھر اِسی طرح پیپلزپارٹی کے وفد نے آج ایم کیو ایم رہنماؤں سے ملاقات کی ۔اِن میل ملاقاتوں کے نتیجے میں ایم کیوایم نے حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔دوسری جانب بلاول بھٹو اور نواز شریف میں بھی مسلسل رابطے ہورہے ہیں جو کہ حکومت کیلئے خوش آئند ہیں ۔لیکن اِس کے باوجود حکومت کو اہم ترامیم کیلئے مولانا فضل الرحمان کی حمایت درکار ہے ۔اور مولانا فضل الرحمان کیا فیصلہ لیتے ہیں ابھی اِس پر کچھ بھی حتمی نہیں کہا جاسکتا ۔کیونکہ وہ اب تک اپنے سیاسی کارڈز کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ۔بظاہر تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ آئینی عدالتوں کو لے کر حکومت اور جے یو آئی ف کی سوچ مطابقت نہیں رکھتی۔
حکومت کی جانب سے جو آئینی ترامیم کے کچھ نقاط سامنے آئے ہیں اُن کے اہم پوائنٹس پر بات کریں تو حکومتی مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکین پر مشتمل ہوگی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کریگی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر3سینئر ترین ججز میں سے کیا جائیگا، آئینی عدالت کا فیصلہ کہیں چیلنج نہیں ہوسکے گا۔جبکہ جے یو آئی ف کے مسودے کے مطابق آئینی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کے لئے سپریم کورٹ کے خصوصی بینچز تشکیل دئیے جائیں گے، یعنی دیکھا جائے تو آئینی عدالتوں کے قیام کے ھوالے سے حکومت اب تک دستبردار نہیں ہوئی اور دوسری جانب مولانا فضل الرحمان بھی آئینی نوعیت کے مقدمات کیلئے سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ کے مطالبے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے دوسرے اجلاس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا کیونکہ مولانا نے حکومت کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔اب ایک طرف مولانا نے حکومت کا مسودہ مسترد کیا لیکن آج مولانا فضل الرحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اِس کی وجوہات بھی بتائی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ کہ آئینی ترمیم پر کافی ہم آہنگی ہوچکی، آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
اب آج بھی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس ہوا ،جس میں آئینی مسودہ پر مذید مشاورت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔۔کمیٹی کا اگلا اجلاس 17 اکتوبر کو سہ پہر ساڑھے تین بجے طلب کرلیا گیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی معاملے پر پوزیشن واضح ہوتی ہے یا نہیں ؟فی الحال مولانا فضل الرحمان سیاسی شطرنج کے اِس کھیل میں اپنی چالوں کو مسلسل بدل رہے ہیں ۔جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ مولانا صاحب آخری وقتوں میں کیا کرنے جارہے ہیں ؟اور شاید اِسی کو دیکھتے ہوئے حکومت نے آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے متبادل تلاش کرنا بند نہیں کیا۔واقفان حال کہتے ہیں کہ حکومت یہ امید ظاہر کر رہی ہے کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کے حوالے سے قومی اسمبلی کے اسپیکر کی طرف سے ارسال کردہ دو مراسلوں کے بارے میں فیصلہ کردے گا۔قوی امکانات تو یہی ہیں کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ حکومت کے حق میں ہوگا اور اگر ایسا ہوجاتا پے تو حکومت مکمل فری ہینڈ کے ساتھ آئین میں ترامیم کرسکتی ہے۔اور ٹوسٹ تو یہ بھی ہے کہ حکومت آئینی ترمیم کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور الیکشن کمیشن ممبران کو دوبارہ پانچ سال تک تعینات کرنا چاہتی ہے ، اب اِس کو حکومت کے مخالفین اِس انداز میں دیکھ رہے ہیں کہ حکومت الیکشن کمیشن سے مخصوص نشستوں کا فیصلہ اپنے حق میں کروانے کیلئے اِس طرح کی ترمیم لارہی ہے ۔تاکہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر ممبران کو توسیع دے کر حکومت اپنا سلسلہ چلاتی رہے ۔تحریک انصاف تو پہلے بھی حکومت ا ور الیکشن کمیشن پر آپس کے گٹھ جوڑ کا الزام لگاتی رہی ہے ۔پی ٹی آئی رہنما ماضی میں کیا کچھ کہتے رہے آئیے اُس کی ایک جھلک دیکھتے ہیں ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر حکومت کا ساتھ دیتا ہے یا پھر وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرتا ہے کیونکہ اگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں فیصلہ نہیں دیتا تو پھر الیکشن کمیشن توہین عدالت کا مرتکب ہوسکتا ہے ۔سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے ہمارے پروگرام میں بات کرتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہٹ کر فیصلہ دیتا ہے تو اِس کو سنگین نتائج بھگتنے پڑسکتے ہیں۔