منشیات کا بڑھتا ہوارجحان، اصل حقیقت کیاہے؟

سہیرہ طارق | محکمہ پولیس ملتان نے گزشتہ آٹھ ماہ میں1 ہزار 6 سو 13 منشیات فروشوں کو  گرفتار کیا ،منشیات کے عادی افراد کی علاج سے بھی راہ فرار

Sep 15, 2023 | 12:07:PM
منشیات کا بڑھتا ہوارجحان، اصل حقیقت کیاہے؟
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24urdu.com
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

منشیات کے عادی مریضوں کو اپنے گھر اور معاشرے میں بری نظر سے دیکھا جاتا ہے اگر کوئی شخص منشیات کی عادت میں مبتلا ہو جائے تو نہ صرف معاشرہ بلکہ اپنے گھر والے بھی اسے قبول نہیں کرتے ان کا مکمل علاج کروانے کے بجائے  در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہےیہ لوگ نہ صرف منشیات استعمال کرکے اپنی زندگی داؤ پر لگا بیٹھے ہیں بلکہ اپنے سگے رشتوں سے بھی دور ہیں۔

ڈاکٹر ثائر شیخ ماہر منشیات و نفسیات ہیں ان کے مطابق منشیات کی عادت کوئی جسمانی بیماری نہیں بلکہ اسکا تعلق دماغ سے ہے مریض کے منشیات کا استعمال ترک نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ادارہ میں اس نے مکمل علاج نہ کروایا ہو بلکہ ادھورے علاج کے دوران ہی ادارے سے چلا گیا ہو علاج گاہ کی جانب سے اگر مریض کا فالو اپ نہ لیا جائے تو دوبارہ نشے کا شکار ہو سکتا ہے گھر والوں کی جانب سے مناسب توجہ اور ہمدردانہ رویہ نہ ملنے پر بھی مریض دوبارہ اسی بیماری کی طرف پلٹ جاتا ہے علاج کے بعد مریض کو بہتر مصروفیت مثبت سرگرمی یا روزگار نہ ملنے پر بھی دوبارہ نشے کی طرف راغب ہو سکتا ہے علاج سے پہلے مریض جن لوگوں کے ساتھ مل کر منشیات کا استعمال کرتا ہے مریض کو ان سے دور رکھنا بہت ضروری ہے اگر دوبارہ اسی ماحول میں جائے۔

 ڈاکٹر ثائر شیخ کے مطابق علاج کے بعد بھی سو فیصد نہیں کہا جا سکتا کہ مریض دوبارہ نشہ نہیں کرے گا اس میں سب سے اہم کردار مریض کا ماحول ادا کرتا ہے اگر اسے دوبارہ پرانے ماحول میں رکھا جائے فالو اپ نہ لیا جائے اور جس صحبت میں نشہ کرنا شروع کیا ان سے میل ملاپ رکھنا ترک نہ کرے تو مریض با آسانی دوبارہ نشہ کرنا شروع کر دیتا ہے ۔

یہ پڑھیں:بغاوت پر اکسانے کا کیس ,علی وزیر کے جوڈیشل ریمانڈ کا تفصیلی فیصلہ جاری

ڈاکٹر نثار احمد ملتان میں منشیات کے عادی مریضوں کی بحالی کے لیے بنائے گئے نجی ہسپتال نجات سنٹر کے ڈائریکٹر ہیں اور گزشتہ 15 برس سے منشیات کے مریضوں کو علاج فراہم کر رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ پرائیویٹ علاج گاہوں میں صرف انہی مریضوں کا علاج ممکن ہے جن کے گھر والے مہنگے علاج کے اخراجات با آسانی برداشت کر سکیں نجات سنٹر میں 90 روز کے دوران مریض کا مکمل علاج کیا جاتا ہے یہاں ایک دن کی فیس 4 سے 5 ہزار روپے مقرر ہے علاج کا سب سے پہلا مرحلہ مریض کو نشہ چھوڑنے کے لیے قائل کرنا اور علاج کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا ہے اس کے بعد Detoxification اور Reheblitation کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:انگلی پکڑ کرچلنا سکھانے والے ماں باپ بڑھاپے میں تنہا رہ جاتے ہیں،آخر کیوں؟

شروع کے 15 سے 45 روز تک مریض کو Detoxify کیا جاتا ہے جس میں اس کی نشے کی طلب کو کنٹرول کرنا اور اسکے مزاج میں ہونے والی تبدیلیوں کو بہتر بنانا شامل ہے اسکے بعد Reheblitation کا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں مریض کو ڈاکٹرز کی جانب سے ادویات فراہم کی جاتی ہیں کونسلنگ سیشنز اور ورزش بھی کروائی جاتی ہے علاج مکمل ہونے کے بعد ماہانہ بنیادوں پر مریضوں اور انکی فیملی سے رابطہ رکھا جاتا ہے اور سیشن بھی لیے جاتے ہیں علاج کروانے کے بعد ڈاکٹرز کے ساتھ فیملی والے بھی مریض پر نظر رکھیں اور اسے بہتر ماحول فراہم کریں تو نشے کا استعمال ترک کرنا ممکن ہے۔

 یہ بھی پڑھیں:عمران خان کی سائفر کیس کیخلاف درخواست میں ترمیم کا معاملہ، سماعت 19 ستمبر کو ہو گی
ڈاکٹر نثار نے بتایا کہ ان کے ادارے میں سال 2022 سے جون 2023 کے دوران 250 کے قریب مریض علاج کے لیے داخل ہوئے اور ایک وقت میں 25 سے 30 مریضوں کے علاج کی گنجائش موجود ہے یہاں آنے والے زیادہ تر مریضوں کا تعلق امیر اور بڑے گھرانوں سے ہے جہاں پیسے اور معاشی مسائل کا سامنا تو نہیں مگر والدین کی عدم توجہی اور ایک دوسرے کے لیے وقت نہ ہونے کے باعث اکثر لوگ منشیات کو اپنا ساتھی بنا لیتے ہیں ان میں کالج یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان بھی شامل ہیں اگر گھر والے مریض پر توجہ نہ دیں اور اسکے علاج کے بعد بھی اس میں دلچسپی نہ لیں تو وہ دوبارہ منشیات کا شکار ہو جاتا ہے

 قلعہ کہنہ قاسم باغ سے ملحقہ فٹ پاتھ پر بیٹھے 40 سالہ فہیم سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ انکا تعلق مظفر گڑھ کے علاقے سے ہے منشیات کے استعمال نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا منشیات کے عادت کا شکار ہونے کے بارے میں جب ان سے سوال کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ فیملی میں والدین دو بہنیں اور دو بھائی ہیں گریجویشن تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی جب کوئی ملازمت نہ ملی تو گھر سے اکثر طنعے سننے کو ملتے تھے بے روزگاری کی وجہ سے اپنی شادی تو دور دو جوان بہنوں کی شادی بھی جہیز نہ ہونے کے باعث مشکل ہو رہی تھی۔

مہنگائی، بے روزگاری اور گھر والوں کی جانب سے بے جا دباؤ ڈالنے پر وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو گیا  گھر جانے کو دل نہ چاہتا تھا تو دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا ایسے میں دوستوں کی بری صحبت میں مبتلا ہو کر اس نے ہیروئن، افیم، چرس کا نشہ کرنا شروع کر دیا جو کہ دو سال تک جاری رہا منشیات استعمال کرنے پر گھر والوں نے خوب برا بھلا کہنا شروع کیا مگر بے روزگاری کے طعنے دینا نہ چھوڑے ایسے میں فہیم نے گھر میں بھی نشہ کرنا شروع کر دیا ۔

جس پر گھر میں لڑائی جھگڑے رہنا معمول بن گیا ایک رات جب فہیم نشے کی حالت میں گھر کی چارپائی پر لیٹا ہوا تھا اسکے بھائیوں نے اسے گھر سے نکال دیا فہیم کو بے گھر دیکھ کر اسکے دوست نے دو دن تک اپنے گھر میں پناہ دی پھر کسی سے معلوم کرنے پر اسے ملتان کے ڈرگ ریہیبلیٹیشن سینٹر میں داخل کروا دیا دوران علاج ایک ماہ تک علاج جاری رہا جس میں کچھ مقدار میں ادویات فراہم کی جاتی رہیں اس دوران گھر والوں اور دوستوں نے فہیم کی کوئی خبر نہ لی تنہائی اور گھر والوں کے ناروا رویے کے باعث فہیم کو منشیات کی طلب بڑھنے لگی۔

مزید پڑھیں:وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر منشیات ڈیلرز کیخلاف کریک ڈاؤن جاری

مگر ادارے میں رہتے ہوئے یہ ممکن نہ تھا تین روز تک مسلسل اس نے ادارے میں اچھا خاصا ہنگامہ کیا باقی مریضوں کے ساتھ  جھگڑا کیا کہ مجھے ادارے سے باہر جانے دو کوئی سرپرستی نہ ہونے کے باعث ادارے نے بھی فہیم کو یہاں سے ڈسچارج کر دیا اور وہ سڑکوں کی دھول کھانے کے لیے بے یارو مددگار نکل پڑا ، آج اس کو منشیات کی عادت کا شکار ہوئے 6 سال کا عرصہ گزر چکا ہے گھر والوں نے کبھی اس سے رابطہ کرنے کی یا ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی فہیم اپنی زندگی کے دن رات نشہ کرکے سڑکوں گے پاتھوں پر بدترین زندگی گزار رہا ہے

ڈرگ ری ہیبلی ٹیشن سینٹر ملتان میں اپنی نوعیت کا واحد سرکاری ادارہ ہے جو منشیات کا شکار افراد کی بحالی کے لیے قائم کیا گیا یہاں پر صرف منشیات کا شکار ہونے والے مرد افراد کا علاج کیا جاتا ہے ادارے میں منشیات کے عادی مریضوں کے داخلے کے لیے جو پالیسی بنائی گئی ہے اس کے مطابق صرف اسی صورت میں مریض کو داخل کیا جاتا ہے جب وہ اپنی رضامندی سے علاج کروانا چاہتا ہو گھر والوں کی زور زبردستی کے ذریعے مریض کو یہاں کر داخلہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ادارے کے پاس ایسے کوئی اختیارات نہیں جس کے تحت وہ مریض کو باندھ کر یا زبردستی روک کر اسکا علاج کر سکیں۔

ضلعی انتظامیہ کے ترجمان سے جب منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے سرکاری اقدامات بارے بات کی گئی تو انکا کہنا تھا کہ اس مرکز میں 50 مریضوں کی گنجائش ہے لیکن اس وقت وہاں صرف 24 مریض زیر علاج ہیں ۔

منشیات بحالی سنٹر کے انچارج محمد میثم نے بتایا کہ جنوری 2021ء سے مارچ 2023ء کے ڈیٹا کے مطابق ادارے میں گیارہ سو پچاس مریض علاج کی غرض سے آئے جن میں سے محض پانچ سو مریضوں نے مکمل علاج کروایا اور صحت یاب ہو کر واپس گئے جبکہ 200 کے قریب مریض ایسے تھے جو نشے کی عادت کو چھوڑنے کا ارادہ نہ رکھتے تھے۔ لواحقین کی جانب سے داخل کروائے گئے وہ مریض چند روز کے اندر ہی ادارے سے بنا علاج کروائے اپنی منشیات زدہ زندگی میں واپس چلے گئے۔سینٹر انچارج نے مزید بتایا کہ ادارے کے پاس مریضوں کو زبردستی یا باندھ کر رکھنے کا کوئی اختیار نہیں یہاں پر صرف وہ مریض ہی داخل ہو سکتے ہیں جو اپنی مرضی سے علاج کروانا چاہتے ہوں۔ 

سینٹر انچارج محمد میثم کا کہنا ہے کہ باقی 450 مریضوں میں سے زیادہ تر ایسے بھی تھے جنہوں نے پانچ سے چھ ماہ ادارے میں اپنا علاج کروایا اور دوبارہ نشے کو ہاتھ نہ لگانے کے ادارے سے واپس گئے مگر کچھ عرصے بعد مریضوں اور ان کے لواحقین سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ بری صحبت اور پرانے ماحول کے باعث انہوں نے دوبارہ منشیات کا استعمال شروع کر دیا ہے ادارے کی جانب سے ان مریضوں کو دوبارہ آکر داخل ہونے اور علاج کروانے کی ہدایات کی گئی ان کے لیے کونسلنگ سیشن بھی منعقد کروائے گئے مگر منشیات کا استعمال ترک کرنا ممکن نہ ہو سکا جبکہ ان میں سے چند مریضوں کے لواحقین نے بتایا کہ انہیں پرائیویٹ اداروں میں بھی علاج کی غرض سے داخل کرایا۔ مگر کوئی افاقہ نہیں ہو سکا۔
 ادارے میں مریضوں کو رہائش ، تین وقت کا کھانا ، ادویات وغیرہ مفت فراہم کی جاتی ہیں اگر مریض کے لواحقین چاہیں تو اپنی مرضی سے اسے کبھی کبھار کھانا اور ضرورت کا سامان پہنچا سکتے ہیں مگر ادارے کی جانب سے کوئی فیس نہیں لی جاتی سنٹر انچارج محمد میثم نے بتایا کہ ڈرگ ری ہبیلیٹیشن سنٹر میں ایک ایم بی بی ایس مرد ڈاکٹر، سینئر میڈیکل آفیسر، ایک ایف سی پی ایس خاتون ماہرنفسیات اور ایک میڈیکل سوشل ورکر تعینات ہیں۔ نئے مریض کو داخلہ دیتے وقت بنیادی صحت کے ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں ہر دو دن بعد ڈاکٹر مریضوں کا معائنہ بھی کرتے ہیں بوقت ضرورت مریضوں کو سردرد ، بخار کی ادویہ یا وٹامنز فراہم کیے جاتے ہیں میڈیکل سوشل ورکر ادارے میں آنے والے تمام مریضوں کی ہسٹری لکھنے کے ساتھ ان کا ریکارڈ بھی برقرار رکھتی ہیں۔ 

سوشل ویلفیئر آفیسر سمیرا ستار منشیات بحالی مرکز میں گزشتہ 8 سالوں سے بطور منیجر  منسلک ہیں۔ ان کے مطابق نشے کے عادی افراد کو ادویہ کی بجائے کونسلنگ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام ماہر نفسیات انجام دیتے ہیں ادارے میں ایک ہی ماہر نفسیات موجود ہے جو ہفتے میں دو بار تمام مریضوں کے ساتھ کونسلنگ سیشن کے دوران انہیں منشیات کے نقصانات اور خطرات سے آگاہ کرتے ہیں مگر انہیں نشے سے دور رکھنے کے لیے اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ ایک ہفتے میں دو سے تین بار مریضوں کو دینی تعلیمات ، واقعات ، آیات و احادیث مبارکہ کی روشنی میں منشیات کو ترک کرنے کا سبق دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مریضوں کی تفریح کے لیے ان ڈور گیمز اوران کی خوراک کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے یہاں پر مریضوں کو منشیات استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی مریض علاج کے باوجود منشیات کا استعمال ترک نہ کرے شور اور واویلا مچائے تو اس کے لواحقین کو بلوا کر مریض کو واپس بھیج دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:جناح ہاؤس حملہ کیس، اہم خاتون رہنما کی ضمانت منظور

شاہد محمود انصاری کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ متحرک سماجی کارکن ہیں اپنی سماجی تنظیم سول سوسائٹی فورم کے پلیٹ فارم سے مختلف بحالی مراکز میں نشے کے عادی افراد کے لیے کونسلنگ سیشنز اور آگاہی سیمینارز منعقد کرواتے ہیں انکے مطابق منشیات کے عادی افراد کے لیے اسکا استعمال ترک کرنا بہت مشکل  ہوتا ہے۔ 
 انہوں نے بتایا کہ منشیات بحالی سنٹر میں شروع کے ہفتے یا 15 دن تک کم مقدار میں ادویات فراہم کی جاتی ہیں اسکے بعد اگر دوائی نہ دینے پر مریض چیختے چلاتے ، شور مچاتے اور اکثر توڑ پھوڑ بھی کرتے ہیں ایسی صورتحال دیگر مریضوں کے علاج پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے  چونکہ سنٹر میں مریضوں کو زبردستی باندھ کر نہیں رکھا جا سکتا اس لیے انکے مزید علاج کی ذمہ داری نہ لیتے ہوئے انہیں واپس لواحقین کے حوالے کر دیا جاتا ہے ،

ادارے کے اجنبی رویے اور گھر والوں کی جانب سے داخل کروائے جانے پر مریض دل میں رنج رکھ لیتا ہے اور بحالی سینٹر سے باہر آتے ہی دوبارہ نشہ شروع کر دیتے ہیں۔

دوران علاج منشیات استعمال نہ کرنے کی وجہ سے مریضوں کی بھوک کی اشتہا بڑھ جاتی ہے اور بحالی مراکز میں کھانے پینے کا مناسب انتظام نہ ہونا یا خوراک میں کمی کے باعث مریضوں کے اندر غم و غصّے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اس رویے کے باعث وہ وقتی طور پر تو نشہ چھوڑنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں مگر باہر جاتے ہی دوبارہ منشیات کے عادی بن جاتے ہیں مہنگائی ، بے روزگاری ، بنیادی ضروریات کی کمی اور پھر گھر والوں کے طعنے سننے کے بعد مریض کو صرف نشے کی صورت میں ہی نجات دلائی دینے لگتی ہے۔

ترجمان پولیس کے مطابق نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑھنے کی وجہ گھر والوں سے دوری ہے خاص طور پر جو نوجوان دیگر شہروں سے آکر ہاسٹلز میں رہتے ہیں وہ والدین کی سرپرستی نہ ہونے اور دوستوں کی بری صحبت اختیار کرکے منشیات کی عادت کا با آسانی شکار ہو جاتے ہیں منشیات کی سپلائی اور فروخت کرنے کے لیے شہر بھر میں مختلف گروہ بھی سرگرم رہتے ہیں امیر لوگ کرسٹل ، آئس ،  پلز اور شراب کا نشہ زیادہ استعمال کرتے ہیں جبکہ منشیات فروشوں کے خلاف ٹھوس کریک ڈاؤن نہ ہونے کے باعث غریب آدمی پکا ، چرس ، افہیم جیسی منشیات با آسانی خرید سکتا ہے

ترجمان ملتان پولیس کے مطابق تھانہ قطب پور نے رواں سال ماہ اگست میں کاروائی کرتے ہوئے بین الصوبائی گینگ کے 02 منشیات فروشوں کو گرفتار کر کے 20 کلو گرام چرس 02 کلو گرام آئس اور 02 کلو گرام افیون برآمد کر لی جبکہ ملزمان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے یہ ملزمان تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کررہے تھے اس حوالے سے سی پی او ملتان منصور الحق رانا کا کہنا تھا کہ منشیات فروشی میں ملوث عناصر کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن جاری ہے تاکہ معاشرے سے منشیات کا خاتمہ کیا جا سکے اور نوجوان نسل کو تباہ ہونے سے بتایا جا سکے

ملتان پولیس نے رواں سال جولائی کے مہینے میں 25 منشیات فروش ملزمان کو گرفتار کر کے 08 کلو گرام سے زائد چرس اور 300 لیٹر شراب برآمد کر کے مقدمات درج کیے ہیں پولیس کی جنوری 2023 سے اگست 2023 کی جاری کردہ کارکردگی رپورٹ جاری کی گئی ، اس رپورٹ کی تفصیلات کے مطابق محکمہ پولیس نے منشیات کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے منشیات فروشوں کے خلاف 1585 مقدمات درج کر کے 1613 ملزمان کو گرفتار کیا اور ان سے ساڑھے 7 کلو گرام ہیروئن، 340 کلو گرام چرس، 80 کلو گرام افیون، 68 ہزار لیٹر شراب، 58 چالو بھٹی اور 676 کلو گرام بھنگ برآمد کی گئی۔

محکمہ پولیس کا کہنا ہے کہ نشہ کرنے کے عادی افراد کو جب نشہ نہ ملے تو وہ مختلف جرائم کا شکار ہو جاتے ہیں نشہ خریدنے کے لیے چوریاں بھی کرتے ہیں نشئی افراد گھر کے برتن چوری کرنے سے شروع ہوتے ہیں اور انکا انجام کسی کی جان لینے تک بھی پہنچ جاتا ہے ۔۔  نشئی افراد چھوٹی چھوٹی چوریاں جیسا کہ ٹوٹی ، پنکھا ، گھر کی موٹر یا برتن چوری کرکے بیچتے ہیں اور نشہ خریدتے ہیں مگر جب یہ بھی ممکن نہیں رہتا تو مختلف جرائم پیشہ عناصر انکو اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں ، ترجمان محکمہ پولیس نے بتایا کہ پیشہ ور مجرم ان نشئی افراد کو کرایے کے قاتل کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں ، انہیں پیسوں یا پھر نشہ اور چیزوں کا لالچ دے کر باآسانی گن پوائنٹ پر مختلف جرائم کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے

ضرور پڑھیں:عوام کو جن سے امید ہے ان میں حالات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں:مولانا فضل الرحمان

ایس پی کینٹ ڈویژن کا کہنا ہے کہ نشہ کرنے والے افراد کو انکے جرائم کی بنا پر سزائیں بھی دی جاتی ہیں ، پولیس کے قانون آرٹیکل 9 سی کے تحت کسی بھی شخص سے اگر ایک کلو سے زائد چرس برآمد ہو تو اسے کڑی سزا مل سکتی ہے اس جرم کی سزا بھی ناقابل ضمانت ہوتی ہے ، موٹر سائیکل چوری ، فائرنگ ، کسی شخص کو زخمی کرنے یا مارنے کی کوشش کرنے قتل کرنے پر وارننگ کے ساتھ ایک سے دو مہینہ قید کی سزا دی جاتی ہے منشیات فروشی میں ملوث ملزمان کو کم سے کم بھی 6 ماہ قید بامشقت سزا دی جاتی ہے

محکمہ پولیس نے گزشتہ 8 ماہ کے دوران جو کارروائیاں کیں اسکے مطابق مختلف جرائم میں ملوث 48 گینگ کے 145 ارکان گرفتار کیے گئے ، گزشتہ 6 ماہ کے دوران کارروائی کرتے ہوئے نشئی افراد کو جن کیسز میں پکڑا گیا اس میں 100 ملزمان قتل ، اقدام قتل کے 120 نشئی ملزمان ، ڈکیتی کے 80 ملزمان ، نابالغ بچیوں کے ساتھ زیادتی کے 28 ، وہیکل چوری کے 42 ملزمان کو گرفتار کیا اور یہ تمام ملزمان مختلف اقسام کے نشے کی عادت کا بھی شکار پائے گئے۔

نوٹ:یہ بلاگ ذاتی خیالات پر مبنی ہے،بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ایڈیٹر

 سہیرہ طارق گزشتہ 7 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، بی ایس ماس کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد قومی و علاقائی نیوز چینل میں سماجی، سیاسی ،معاشرتی و دیگر موضوعات پر رپورٹنگ کرتی ہیں ۔