(24 نیوز)سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیخلاف کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا،58 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا،فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ کا دو صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہاہے کہ اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا،نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرتا ہوں،جسٹس منصور علی شاہ کا مزید کہناتھا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے،پارلیمنٹ ہی اپنے بنائے ہوئے قوانین میں ترمیم یا تبدیلی کر سکتی ہے،کیس میں سوال غیر قانونی ترامیم کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا تھا،گزشتہ رات مجھے اکثریتی فیصلے سے متعلق آگاہ کیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ وقت کی کمی کے باعث فی الحال تفصیلی وجوہات بیان نہیں کر رہا،کیس میں اختیارات کی تقسیم اور پارلیمانی جمہوریت کا سوال تھا،سپریم کورٹ کے غیر منتخب ججز منتخب ارکان اسمبلی کی پالیسی کا کیسے جائزہ لے سکتے ہیں،بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی کے بغیر عدالت قانون سازی کا جائزہ نہیں لے سکتی۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیاہے کہ اکثریتی فیصلہ میری عاجزانہ رائے میںآئینی سکیم کیخلاف ہے،آئین کے مطابق ریاست اپنی طاقت اور اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی،اکثریتی فیصلہ آئین کے مطابق اختیارات کی تقسیم کے اصول کے خلاف ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں مزید کہناتھا کہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار کو کبھی رد نہیں کیا جاسکتا،اکثریتی فیصلے میں اس بات کو نہیں پرکھا گیا کہ پارلیمنٹ نے کونسا کام غلط کیا ہے،ارکان اسمبلی کے احتساب کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: مستونگ دھماکے میں زخمی جے یو آئی رہنما حافظ حمداللہ کے حوالے سے اہم خبر آگئی