گلشن کی خوبصورتی اس کے سدا بہار پھولوں اور پھولوں کے وجود سے چار سُو مہکتی خوشبو میں ہے۔ وہ گلشن' مگر کیسا گلشن ہوتا ہوگا جہاں کے پھول ایک دن کھِلتے اور پھر فضا میں کوئی خوشبو بکھیرے بغیر اگلے دن ہی مرجھا جاتے ہوں گے!۔ اپنے گلشنِ پاکستان میں ہم ایسا منظر ہر سال 14 فروری کے دن دیکھتے ہیں۔ جب عزیزوں، والدین، جیون ساتھی یا پھر کسی دوست احباب سے محبت، پیار، الفت، چاہ کا ایسا اظہار کیا جاتا ہے کہ ایک لمحے کو گمان گزرتا ہے یہ ایک دن کے جذبات ہمیشہ یوں ہی ہماری زندگیوں پر مہربان رہیں گے۔اور اگلے ہی دن 15 فروری سے نئے آنے والے سال کی 13 فروری کی تاریخ تک' بڑوں کا احترام، چھوٹوں سے شفقت،اپنوں، پیاروں سے محبت اور اخلاص کے جذبات کو ایسے بھلا دیا جاتا ہے کہ جیسے:
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
اب کے برس بھی 14 فروری کو گزرے کئی روز بیت چلے ہیں۔ اس دن عروج پر پہنچی ہمارے مہربان جذبات کی آنچ مگر ہر گزرتے دن کیساتھ دھیمی سے دھیمی ہوتی چلی جارہی ہے۔ 14 فروری سے اب تک کئی نئی نویلی دلہنوں نے ہیپی ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اپنے سہاگوں کی جانب سے پھول وصول کرنے کے باوجود اپنی مانگیں اجڑتی دیکھیں۔ وہ بچے جنہوں نے ماں باپ کو ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ایک دوسرے کیساتھ اظہار محبت کرتے دیکھا اب وہ نجانے کتنی ہی حیرت انگیز تعداد میں عدالتوں میں اپنی زندگی بھر کی قسمت کا پلڑا کسی ایک طرف جھکتا دیکھ کر روتے چیختے نظر آتےہیں۔ کتنے ہی والدین کی اشکوں سے لبریز آنکھوں نے ویلنٹائن ڈے منانے والے اپنے لخت جگروں کو انہیں اولڈ ہوم میں چھوڑ کر جاتادیکھاہوگا۔ شہر میں ہر روز کس قدر ڈاکو، چور اپنے ہی اُن سینکڑوں،ہزاروں ہم وطنوں کے ارمانوں کا خون کر کر کے نہیں تھکتے ہونگے جو اپنے بچوں کی خوشیوں، بیمار ماں،لاچار باپ کی دوائی کیلئے دن بھر سرگرداں رہتے ہیں!۔
ویلنٹائن ڈے کے بعد ہے تلاش اپنوں کو اپنوں کی
تجدید محبت کا بھی ایک دن ہونا چاہیے!
پاکستان میں ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ مگر بہت خوش قسمت ٹھہرا ہے۔ یہاں اسے کسی اصول، قاعدے، ضابطے، نظریے، سوچ یا رشتے ناطے کے تحت نہیں' بلکہ کسی بارڈر پر کسی دو ملکوں کے جوانوں کی ایک دوسرے سے دوران پریڈ زیادہ اٹھی ٹانگوں کے کسی قصے کی یاد کی طرح خدا واسطے منایا جاتا ہے۔ اور اتنا منایا جاتا ہے کہ سال کے پھر کسی اور دن اپنوں سے پیار کرنے کی نوبت آتے آتے بھی نہیں آتی۔ ہمارے انفرادی رحم و کرم پر اپنوں کی قربان ہوتی ہوئی امیدیں، بھرم، خواہشات تو ہیں ہی' اجتماعی طور پر بھی مگر ہمارا دامن ملک و قوم کی عملی طور پر بھلائی چاہننے والوں کی محبت اور انکی عزت سے تر نہیں ہے۔ اگر معاشرے کے ہم لوگ 14 فروری کے بعد اپنوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلا کر انہیں چند پل کی خوشیاں دینا بھول جاتے ہیں تو ارباب اختیار و حکومتوں کی جانب سے ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کیلئے دن رات کام کرنے والے مزدوروں، محنت کشوں، دفاتر اور سڑکوں پر جانفشانی،دیانتداری دلجمعی سے عوامی خدمات کی انجام دہی میں مصروف محنتی و لائق افراد کے اچھے کاموں کو سراہنے سے بھی کترایا جاتا ہے۔ الٹا ہمارے ہاں دیانتداری اور ایمانداری بڑوں چھوٹوں کو کھڈے لائن لگادینے کا موجب بن جایاکرتی ہے۔
منظر جاوید علی کے ان لازوال شعروں سے ہمارے آج کے معاشرے کی کیا خوب عکاسی ہوتی ہے۔
کہاں سے اتری اچانک ہمارے شہر میں شام
کوئی کلام کی خواہش نہ کوئی تاب کلام
کوئی شبیہ سلامت نظر نہیں آتی
بجھے ہوئے سے دیے ہیں دیوں سے خالی ہیں بام
اب آسمان کو محبت سے کون دیکھے گا
جب آسمان سے کوئی لے گیا ہے ماہ تمام
اپنی ذات میں ویلنٹائن ڈے کی آفاقی حقیقی معنویت رکھنے والے' 36اضلاع میں 7 ہزار سکولز میں 23 لاکھ بچوں کو بہترین کوالٹی ایجوکیشن مفت مہیا کرنےکا شاندار کامیابی سے بیڑہ اٹھائےہوئے منظر جاوید علی جیسے عظیم انسان' معاشرے کی فلاح کیلئے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام دیتے ہوئے بغیر کسی گلے شکوے کے عمریں گزار دیتے ہیں۔ ملک کے 972 سرکاری اداروں میں کئی منظر جاوید علی موجود ہیں جو وطن و قوم سے عشق کے سفر کے راہی ہیں۔ کوئی سیکھنا چاہے تو زندگی کے ہرشعبےمیں موجود ایسے زندہ و جاوید لوگوں سے' انسانی عشق کی راہ میں وفاداری سیکھی جاسکتی ہے۔ ملک کو محفوظ اور عظمت کی بلندیوں پر پہنچانے والےسائنسدانوں کی بات ہوتو ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹرعبدالسلام کو ہم نے کیا صلہ دیا؟۔ سیاست و انسانیت کی خدمت میں ایک دنیا کو عملی طور پر متاثر کرنیوالے سرظفراللہ خان، جسٹس بھگوان داس اور ایدھی صاحب کوہم بھول ہی گئے۔ کون نہیں جانتا کہ شعیب خان جدون نے شہریوں کو ملاوٹی غذا کی فروخت کرنیوالے مافیا کی لگامیں کیسے کھینچیں،اور اب یہ کتنی شاندار مستعدی کیساتھ انسانی صحت کی حفاظت میں مضطرب ہیں۔
ارفع کریم کے جانے کے بعد اس کی محبت کی یاد میں ہم نے ٹاور تو بنا دیا، مگر دنیا میں ارفع کریم ٹاور سے بھی بلندوبالا لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے قابل ستائش خدمات سر انجام دینے والے عامر ذوالفقار خان کیساتھ ہم کیا سلوک روا رکھتے ہیں؟،جو قائداعظم میڈل کا تاج اپنے سر پر سجائے بغیر کسی تمنا و لالچ کے رونق محفل حیات ہیں۔ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت میں دن رات مگن ایک درویش ڈاکٹر حیدر اشرف کی عزت کی'اس کے بے مثال کارناموں کے باوجود محض اس لیے کتنی خاک نہیں اڑائی گئی کہ انہوں نے زندگی کے چند پل اپنی بیمار بچی کےعلاج کیلئے دان کردیے تھے!۔ ایک زمانے کو چین کی نیند مہیا کرنے والے طارق عزیز نے محض اپنا فرض نبھاتے ہوئے ریاست کی رٹ قائم کی تو عدالتوں میں روندنے کا بہانہ تراش لیا گیا!۔ قلم کی دنیا سے عمل کی دنیا تک بااصولی ہی بااصولی کی راہ اختیار کرنیوالی فرض شناسی کے رستے کی شائستہ اطوار مسافر عمارہ خان کو بھی محض کتابِ زندگی میں دیانتداری کا اختیاری مضمون چننے پر کٹھن مرحلوں کی بھٹی سے گزارا گیا!۔ آفرین ہے کہ الیاس گوندل اور مدثر شاہ جیسے ڈاکٹر عوامی راہ عشق میں امتحان پر امتحان پاس کرتے ہوئے کیسی شان سے علاجِ دردِ خلق خدا پہ مائل ہیں۔ شاہراہ فاطمہ جناح پر وہ عاطف نذیر اور انارکلی کے دامن میں وہ عبادت نثار' دھرتی کے یہ مہان سپوت' انسانوں کو انسانوں کے شر سے بچانے کیلئے رات کو دن اور دن کو رات کیے رہتے ہیں۔
مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے ارمانوں کی تکمیل کی ذمہ داری قبول کی تھی!۔ وہ جان سے گئیں! مگر محمد علی جناح کے ارمان ابھی بھی ادھورے ہیں۔ قائداعظم پاکستان کو کرپشن سے پاک،ترقی یافتہ اور انگلستان جیسا جدید جمہوری ملک دیکھنا چاہتے تھے۔ بھلا ہو کہ اب ڈاکٹر امجد ثاقب، کلثوم ثاقب، خضرحیات چودھری ایسے دیگر محنتی،قابل افراد یہ مشن پورا کررہے ہیں۔ یہ نام پاکستانی معاشرے کا عظیم سرمایہ ہیں جن سے کام کرنےکی لگن،اور ایماندارانہ زندگیوں سے سیکھا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ قوم کیسے بناکرتی ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے نشان امتیاز کا اعلان ویلنٹائن ڈے کو نوحہ خوانی سے بچاسکتاہے!۔
ہمارے معاشرے کا ماہ تمام مگر اپنے اپنے کام کی ایمانداری سے بجاآوری اور ایک دوسرے کیساتھ محبت و احترام کی ہزاروں سال پرانی تہذیب تھی۔یہ تہذیب سکڑتے سکڑتے غیر حقیقی،مصنوعی ویلنٹائن ڈے تک محدود ہوگئی ہے۔اس مصنوعی پن کی حالت یہ ہے کہ اپنوں سے الفت اب ایک دن کی محبت میں دفن ہوگئی ہے۔ آئیے مال و دھن،عہدوں اور دنیا پالینے کی لالچ میں بچوں کے ہاتھوں قتل ہونیوالی ریاست ماں کی روح کیساتھ غم بانٹتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کو غم گساروں کی تلاش ہے!۔
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں:ادارہ