(ویب ڈیسک) پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا ہےکہ حکومت کی مذاکرت کی کوئی نیت نہیں، یہ کہتےکچھ اورکرتےکچھ ہیں، یہ آئین کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ آصف زرداری کہتے ہیں اعتراض الیکشن پر نہیں وقت پر ہے، الیکشن کی ٹائمنگ آپ کےکنٹرول میں نہیں، دو اسمبلیاں تحلیل ہوگئیں۔
ایک انٹرویو میں شاہ محمودقریشی کا کہنا تھا کہ بات چیت کے لیے پیرا میٹرز طے کرنا ہوں گے، ایک طرف ڈائیلاگ کی بات دوسری طرف انتقامی کارروائی کر رہے ہیں، علی زیدی اور سیکرٹری جنرل کے پی علی امین گنڈاپور گرفتار ہیں، میں روز پیشیاں بھگتا رہاہوں،عمران پر نئےکیسز بنائے جا رہے ہیں، مذاکرت کی ان کی کوئی نیت نہیں، یہ کہتےکچھ اورکرتےکچھ ہیں، یہ آئین کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں، سپریم کورٹ کو تقسیم کرنےکی کوشش کررہےہیں، یہ توہین عدالت کر رہےہیں،ملک کو انارکی میں دھکیل رہےہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نےبات چیت سےکبھی انکار نہیں کیا مگر پہل حکومت کرتی ہے، ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں تو بتائیں اس کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ آصف زرداری نےکہا ڈائیلاگ غیر مشروط ہونا چاہیے، یہ خوش آئند ہے، ملک کو بھنور سے نکالنےکے لیے پہلی ضرورت نئے انتخابات ہیں، آئین میں یہ قدغن ہےکہ 90 دن کےاندر انتخابات ہونےہیں، ٹائمنگ آصف زرداری نے طےکرنی ہےنہ شہباز شریف اور نہ میں نے، بلوچستان، سندھ اور قومی اسمبلی کےانتخابات پربات چیت ہوسکتی ہے، اس پر بات چیت کے ذریعے ہم ایک وقت میں الیکشن پر متفق ہوسکتے ہیں۔
ضرور پڑھیں :مذاکرت،پی ٹی آئی نے تین رکنی کمیٹی قائم کردی
کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حوالے سے انہوں نےکہا کہ پاکستانی طالبان کو واپس آنا تھا تو فیصلہ ہوا کہ انہیں مین اسٹریم کیا جائے، طالبان کو مین اسٹریم کرنے کے لیے شرائط رکھی گئی تھیں، انہیں کہا گیا کہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا ہے، افغانستان سے ہتھیار لےکر نہیں آنا، یہاں آ کر امن سے رہنا ہے، ان کو ری ہیبلیٹیٹ کرنا تھا۔
شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ اس معاملے پر قومی اسمبلی میں ان کمیرا سیشن میں بریفنگ دی گئی، شہباز شریف، بلاول بھٹو، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت سب تھے، جو آج اعتراضات کر رہےہیں وہ سب بریفنگ میں بیٹھے تھے، بریفنگ کےبعد فیصلہ ہوا کہ آگے بڑھنا ہے اور لائحہ عمل بنانا ہے، پھر ہماری حکومت رخصت ہوگئی، رخصتی کے بعد جو حکومت آئی ذمہ دار تو وہ ہیں۔
رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہمارے دور حکومت میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی آئی، ایک سال میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا، ذمہ دار ہم کیسے ہوسکتے ہیں؟ سوات میں لوگ آنا شروع ہوئے تو کیا ہم نے نشاندہی نہیں کی؟ مراد سعید اور ہمارے دیگر لوگوں نے وہاں لوگوں کو موبلائز نہیں کیا؟ کیا رانا ثنا اللہ نے یہ بیان نہیں دیا کہ یہاں کوئی باہر سے لوگ نہیں آئے؟
ان کا کہنا تھا کہ اب ساری ذمہ داری پیچھےکی طرف منتقل کر رہے ہیں، کوئی سیاسی جماعت اکیلے فیصلہ نہیں کرسکتی، حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنا ہے، دہشت گردی ایک لعنت ہے، ہمیں مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہے، نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔