پاکستان اس وقت معاشی گرداب میں گھرا ہے اور اس سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ سخت مالی معاملات کو کنٹرول کرنے کیلئے پاکستان آئی ایم ایف کےساتھ ساتھ دوست ممالک سے بھی بات چیت کر رہا ہے اور سرمایہ کاری کے لیے انہیں قائل کر رہاہے،گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف نے دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی ولی عہد سے ملاقات کی تھی جس کے بعد 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے متعلق پیش رفت ہوئی تھی ۔اسی کامیاب سفارت کاری کی بدولت ہی اب سعودی حکومت کا اعلیٰ سطحی وفد پاکستان پہنچ چکا ہے۔سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بن عبداللّٰہ کی قیادت میں آنے والے وفد میں سعودی وزیر پانی اور زراعت، وزیر صنعت اور معدنیات، نائب وزیر برائے سرمایہ کاری شامل ہیں ۔ سعودی وفد میں سعودی خصوصی کمیٹی کے سربراہ، وزارت توانائی اور وزارت سعودی فنڈ کے حکام بھی شریک ہیں ۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ وفد مختلف سیکٹر میں سرمایہ کاری پر بات چیت کرے گا جس سے امید ہے جلد ہی پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری ہوگی ۔
دوسری جانب پاکستان آئی ایم ایف سے بھی مذکرات کے لیے تیار ہے۔گزشتہ روز آئی ایم ایف سے نئے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے مذاکرات کے سلسلے میں وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب وفد کے ہمراہ واشنگٹن روانہ ہو گئے تھے۔جہاں کل سے 19 اپریل کے دوران مختف میٹنگز ہونگی ۔اس دورے کے دوران وزیرِ خزانہ کی ایم ڈی آئی ایم ایف اور صدر عالمی بینک سے ملاقاتیں ہوں گی، وزیرِ خزانہ کی دوست ممالک کے وزرائے خزانہ اور امریکی حکام سے بھی ملاقاتیں ہوں گی۔اطلاعات ہیں کہ نئے قرض پروگرام کے سلسلے میں میٹنگز کے دوران قرض معاہدے کے لیے درخواست تیار کر لی گئی۔وفاقی وزیرخزانہ نے اٹلانٹک کونسل میں تقریب کے خطاب کے دوران عندیہ بھی دیا ہے۔
ایم ڈی آئی ایم ایف سے ملاقات کے دوران وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نئے قرض پروگرام کے لیے 2 درخواستیں کریں گے،ایک تو آئی ایم ایف سے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی اور دوسری کلائیمیٹ چینج کے لیے اضافی فنڈ مانگیں گے۔ ذرائع وزارتِ خزانہ نے بتایا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات اور مختص بجٹ پر آئی ایم ایف حکام کے لیے بریفنگ تیار کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ گورنراسٹیٹ بینک اور سیکریٹری وزارتِ خزانہ آئی ایم ایف حکام سے ملاقات کے دوران معاشی اعشاریوں سے آگاہ کریں گے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف کا نیا قرض پروگرام 3 سال کے لیے ہو گا، یہ نیا قرض پروگرام 6 سے 8 ارب ڈالرز کا ہو سکتا ہے، نئے پروگرام کے تحت ایف بی آر میں جاری اصلاحات کو تیز کیا جائے گا۔ حکومت نے 30 لاکھ ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں، آئی ایم ایف کے مطالبے پر ریئل اسٹیٹ اور زرعی شعبے سے ٹیکس کی وصولی کو بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جبکہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔ ایم ڈی آئی ایم ایف سے مثبت بات چیت کے نتیجے میں آئی ایم ایف مشن مذاکرات کے لیے آئندہ ماہ پاکستان پہنچ جائے گا، مشن نئے قرض پروگرام اور آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری میں معاشی ٹیم کے ساتھ کام کرے گا۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق عالمی بینک کے حکام سے بھی ملاقات کے دوران فنانسنگ بڑھانے کے لیے معاشی ٹیم بات چیت کرے ۔
ضرورپڑھیں:قیامت کی بڑی نشانی ظاہر ہوگئی
یہاں سوال پھر وہی ہے کہ ہم آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں سے قرض تو لے لیتے ہیں لیکن جس مقصد کیلئے فنڈز لیتے ہیں وہاں خرچ نہیں کرتے ۔ہمارے غیرملکی قرض بڑھنے کی وجہ بھی یہی ہے۔قرض مل جائے گا کیونکہ قرض دینے والا کبھی بھی اپنے قرض خواہ کو مرنے نہیں دیتا بلکہ اپنے جال میں پھنساتا جاتا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ اس جال سے نکلنا کیسے ہے اس کی تدبیر کسی کے پاس نہیں ۔ماضی میں ایک پارٹی کہ سربراہ جلسوں میں یہ کہتے پائے گئے کہ خودکشی کرلوں گا لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا۔انہوں نے’ خودکشی ‘تو نہیں کہ لیکن آئی ایم ایف کے پاس دیر سے جاکر سخت شرائط پر قرض لیا اور اس قرض کا خاطر خواہ استعمال بھی نہ کرسکے ۔بعد میں آنیوالوں نے ملک دیوالیہ ہونے کا رونا رویا ۔اب دوبارہ حکومت میں آئے ہیں توملک کے وزیردفاع کہتے ہیں کہ ملک’دیوالیہ‘ہوچکا ہے۔جب ملک دیوالیہ ہوچکا ہے تو 2سال یہ کیا کرتے رہے؟اب کیا کریں گے کسی کو کچھ پتا نہیں۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر