افغان طالبان حکومت میں پہلی بار داخلی اختلافات 

احمد منصور || کابل اور قندھار 2 طاقتور دھڑوں کے مراکز ، 4 اہم ایشوز  اندرونی خلفشار کی بنیاد 

Apr 16, 2024 | 15:13:PM

افغان طالبان کی انتہائی غیر لچکدار اور سخت گیر پالیسیوں کے بارے میں ملک کے اندر اور باہر سے تو مخالفانہ آوازیں اور بیزاری کا اظہار کیا جاتا رہا ہے لیکن اب یہ اختلافی صدائیں خود طالبان قیادت کے اندر سے بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ امارات اسلامی افغانستان میں کابل اور قندھار کھل کر دو مخالف کیمپوں میں بٹ گئے ہیں ، طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ قندھار گروپ کی قیادت کر رہے ہیں تو افغان طالبان کے دوسرے سب سے طاقتور لیڈر وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کابل گروپ کے قائد کی حیثیت سے ابھر رہے ہیں جو اعتدال پسندی کا راستہ اختیار کر کے اپنے ساتھیوں سے میانہ روی کے ساتھ کام لینے کی استدعا کر رہا ہے ۔ افغان طالبان کی صفوں میں گہری ہوتی اس خلیج پر عالمی اور پاکستان میڈیا اور تجزیہ کاروں کی گہری نظر ہے اور اس حوالے سے حالیہ چند ماہ کے دوران ہونے والی ڈویلپمنٹس کے تناظر میں امریکی نیوز چینل فوکس نیوز سمیت الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اہم ریسرچ رپورٹس شائع اور نشر ہو رہی ہیں ۔  ان تحقیقی خبروں میں اس معاملے کی انتہائی تفصیل کے ساتھ نشاندہی کی گئی ہے کہ کس طرح افغانستان میں بڑھتے ہوئے معاشی ، سماجی اور سکیورٹی مسائل کے باعث سخت گیر طالبان اور اعتدال پسند طالبان کے درمیان تناو بڑھتا جارہا ہے۔

فوکس نیوز سمیت عالمی میڈیا میں اس حوالے شائع ہونے والی مختلف ریسرچ رپورٹس میں چار ایسے حساس ایشوز کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جن کی وجہ سے افغان طالبان کے سخت گیر اور اعتدال پسند اعلیٰ حکومتی عہدیداروں میں اختلافات اب اختلاف رائے سے آگے بڑھ کر داخلی کشیدگی کی حدود کو ٹچ کرنے لگا گئے ہیں ،  اگر اس معاملے کا باہمی افہام و تفہیم سے فوری حل نہ نکالا گیا تو کئی عشروں سے مسلسل خانہ جنگی سے دوچار یہ ملک ایک بار پھر داخلی خلفشار کا شکار ہو کر نہ صرف اپنے لیئے بلکہ اپنے ہمسایوں اور پوری دنیا کیلئےایک نیا درد سر بن سکتا ہے ۔

ضرورپڑھیں:معاشی گرداب سے نکلنے کی نئی تدبیریں،کیا کامیابی ملے گی؟

افغانستان کی طالبان حکومت کے وہ کون کون سے طاقتور عہدیدار ہیں کہ جو 2 متحارب گروپوں کے قائد بن کر آمنے سامنے آ گئے ہیں اور وہ کون سے چار اہم ایشوز ہیں کہ جن کی وجہ سے ملک ایک بار پھر داخلی خلفشار اور عالمی تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے؟  یہ وہ سوالات ہیں کہ جن کا ہم آج انتہائی تفصیل کے ساتھ تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے ۔

کابل میں چند برس قبل قائم ہونے والی افغان عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان افغانستان کی موجودہ حکومت کی طرف سے اپنے ہم خیال عسکریت پسند گروپوں ٹی ٹی پی اور داعش کے پی  کو پرامن زندگی بسر کرنے پر آمادہ نہ کر سکنا سب سے پہلا اور سنگین ایشو بنا ہوا ہے کہ جس کی وجہ سے پاکستان سمیت افغانستان کے اکثر ہمسائے سرحد پار سے سنگین دہشت گردی جیسے مسائل سے دوچار ہیں اور افغانستان کے چاروں اطراف سے نہ صرف ہمسایہ حکومتوں بلکہ ان کے عوام کی طرف سے بھی افغان طالبان کے ساتھ موجود دیرینہ  روایتی ہمدردی میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے ۔ 

دوسرا بڑا ایشو یہ ہے کہ طالبان حکومت جس طرح دہشت گردی کے حوالے سے اپنے ہمسایوں کے تحفظات کو خاطر میں نہیں لا رہی اسی طرح عالمی برادری اور عالمی اداروں میں بھی اسے اپنے لیئے نرم گوشہ اور خیر خواہی کے جذبات پیدا کرنے میں  اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں ، طالبان کا سخت گیر نظام حکومت اور خواتین سے متعلق ان کا رویہ بھی امارات اسلامی افغانستان کے نام سے قائم اس حکومت کو عالمی تنہائی کا شکار کیئے ہوئے ہے ۔ 

تیسرا اہم ایشو افغانستان کے عام لوگوں کے احساسات اور امنگوں کو کچلنے والا رویہ ہے جس نے ملک میں عوامی بے چینی اور بیگانگی کو بڑھانے میں مزید اہم کردار ادا کیا ہے ، افغانستان تاریخی اور جغرافیائی حوالے سے ایک وفاق ہے جس میں نسلی ، مذہبی اور ثقافتی حوالے سے بالکل مختلف شناخت رکھنے والی اقوام آباد ہیں ، اسے آپ ایسا گلدستہ بھی قرار دے سکتے ہیں کہ جس میں چار پانچ رنگوں کے پھول ہیں ، لیکن امارات اسلامی افغانستان کی پالیسیاں ان تمام پھولوں کو ایک ہی رنگ میں رنگنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے عوامی بے چینی بڑھ رہی ہے ۔ 

چوتھا حساس ایشو معاشی مفادات کا ہے ، افغانستان خطے میں بین الاقوامی تجارت کا ایک اہم روٹ ہے ، بین الاقوامی  تجارت اور اسمگلنگ کی یہ اربوں ڈالر سالانہ کی وسیع و عریض معیشت ہے ، اس کے ساتھ ساتھ یہ ملک منشیات اور ناجائز اسلحہ کی بھی ایک بڑی عالمی مارکیٹ ہے ، ملک میں قیمتی معدنیات کی کانیں ایک اور بہت بڑا پُرکشش محاذ ہے ، ان تمام حوالوں سے افغانستان کی حکومتی مشینری پر ہمیشہ سے ڈالروں کی بارش جاری رہتی ہیں ، 

امریکی فوج کی واپسی کے بعد افغان حکومت کا پرانا سسٹم اچانک ختم ہو جانے کی وجہ سے اضلاع ، صوبوں اور مرکز ، ہر سطح پر حکومتی طاقت کے بالکل نئے مراکز پیدا ہو گئے ہیں اور مقامی قومی و صوبائی سطح کے طاقتور حکومتی عہدیداروں پر چاروں طرف سے ہونے والی ڈالروں کی اس بارش نے بھی نئے نئے حکمران بننے والے کچھ لوگوں کی آنکھیں چندھیا دی ہیں اور ان کے درمیان لوکل لیول سے نیشنل لیول تک دھڑے بندیاں شروع ہو گئی ہیں۔

فوکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں یہ نشاندہی بھی کی ہے کہ گزشتہ دنوں عیدالفطر کے موقع پر سخت گیر طالبان اور اعتدال پسند طالبان کی جانب سے جاری کئے گئے عید مبارک کے پیغامات میں بھی سوچ کا فرق اور غیر مرئی دھڑے بندی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے  ، عالمی شہرت یافتہ اس امریکی نیوز چینل  کا اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان میں اعتدال پسند طالبان اپنی حکومت کی سخت پالیسیوں کو ختم کرکے دنیا کو مثبت پیغام دیکر بیرونی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن سخت گیر طالبان ان کی ایک نہیں چلنے دے رہے ۔

عیدالفطر پر افغانستان کے سپریم لیڈر ملا  ہیبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں  طالبان کے سخت گیر اسلامی قوانین کا دفاع کیا گیا اور عالمی برادری کی ان پر تنقید کو بلاجواز قرار دے دیا گیا۔ اس کے برعکس افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے اپنے پیغام عید میں طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے حکومتی اختیارات کے استعمال کے دوران شائستگی کو محلوظ خاطر رکھیں اور ایسے رویے سے اجتناب کریں جس سے افغان عوام ناخوش ہوں ۔

یہ بھی پڑھیں:بہاولنگر واقعہ ، دو اداروں کی جنگ یا پروپیگنڈا؟حقیقت حاضر ہے 

فوکس نیوز کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے 2021 میں حکومت پر قبضے کے بعد سے ان کے طرز  حکمرانی بالخصوص خواتین کے حقوق کو متاثر کرنے والی پابندیوں نے عام  افغان عوام میں بڑے پیمانے پر ناپسندیدگی اور مذمت کو جنم دیا ہے ، اس غیر لچکدار پالیسی نے افغانستان کی طالبان حکومت کی بین الاقوامی تنہائی کو بھی  مزید بڑھا دیا ہے ۔ 

فوکس نیوز کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قندھار میں طالبان کے سب سے بڑے مرکز کی عیدگاہ میں افغان سپریم لیڈر کے  خطبہ عید میں ماضی کی طرح انتہائی سخت لب و لہجہ اور سخت گیر گفتگو شامل تھی ، اپنے خطبے میں ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو ہم سے کوئی مسئلہ ہے تو ہم اسے حل کرنے کےلئے تیار ہیں، لیکن ہم اپنے اصولوں یا اسلام پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے ، انہوں نے دو ٹوک پیغام جاری کیا اور کہا کہ میں شریعت سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔افغانستان کے سپریم لیڈر کے برعکس دوسرے طاقتور ترین لیڈر وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا عید  کا پیغام  خاصا نرم اور شائستہ تھا ، جو دری اور پشتو 2 زبانوں میں جاری کیا گیا تھا۔ 

سراج الدین حقانی کا اپنے پیغام عید میں کہنا تھا کہ عوام اور حکام کے درمیان دراڑ پیدا کرنے سے گریز کیا جائے اور تمام طالبان عہدے دار عوام سے اپنے برتاؤ میں نرمی ، شائستگی اور محبت و شفقت کے مثبت جذبات کے اظہار پر خصوصی توجہ دیں ۔ امریکی نیوز چینل نے اپنی رپورٹ میں توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ سراج الدین حقانی کا پیغام ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ سے یکسر مختلف تھا جس میں انہوں نے ملک کو درپیش مختلف داخلی اور خارجی چیلنجز کا حوالہ بھی دیا۔

فوکس نیوز نے اس حوالے سے امریکہ کے ولسن سینٹر کے ساوتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین سے بھی گفتگو کی ، جس میں مائیکل کوگل مین کا کہنا تھا کہ سراج الدین حقانی ، طالبان حکومت کا نرم رخ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور طالبان کے بقول ان کے "سفاکانہ طرزِ حکمرانی" سے آگاہ ہیں اس لیئے وہ سخت گیری چھوڑ کر افغان عوام کا اعتماد اور حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

کوگل مین نے مزید کہا کہ حقانی نیٹ ورک بین الاقوامی برادری سے سرمایہ کاری اور امداد کا بھی خواہاں ہے لیکن طالبان کا سماجی ایجنڈہ ، خاص طور پر خواتین کے بارے میں ان کی سخت گیر پالیسیاں عالمی برادری کے ساتھ نتیجہ خیز  مذاکرات کی راہ میں حائل اور ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔فوکس نیوز کا کہنا ہے کہ طالبان نے خواتین پر چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم حاصل کرنے ، ملازمت کرنے  اور پارکوں جیسی عوامی جگہوں پر جانے کے حوالے سے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ۔افغان طالبان نے جسمانی سزا اور سرعام پھانسیوں کا بھی نفاذ کر رکھا ہے ، ان پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان میں ایک بار پھر وہی مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں جو 1990 کی دہائی کے آخر میں طالبان کے پہلے دور حکومت کے دوران دیکھے گئے تھے اور شدید عالمی تنقید کی زد میں آئے تھے۔

امریکی نیوز چینل کا کہنا ہے کہ طالبان کی ان سخت گیر پالیسیوں کے باعث بیرونی امداد کی فراہمی میں بڑی رکاوٹیں ہیں ، اور فراخدلانہ عالمی معاشی امداد نہ ملنے کی وجہ  سے ملکی معیشت اب زوال کا شکار ہے اور افغان عوام کا ایک بڑا حصہ بڑے پیمانے پر خشک سالی ، بھوک اور بے گھر ہونے جیسی کٹھن اور دکھوں میں گھری ہوئی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ 

فوکس نیوز چینل نے اس حوالے سے  پاکستانی صحافی اور مصنف احمد رشید سے بھی گفتگو کی ، افغان امور کے ماہر احمد رشید کا کہنا تھا کہ طالبان کے اندر ایسے اعتدال پسند عناصر موجود ہیں جو خواتین کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ حکومت کے اندر مضبوط پوزیشن میں نہیں ہیں ،  اس لئے وہ بس اپنا وقت گزار رہے ہیں۔فوکس نیوز کا کہنا ہے کہ سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے بلاشبہ اپنی مضبوط رٹ قائم کر رکھی ہے تاہم ان کے پاس لوگوں کے بیشتر سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے ، وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اس سے قبل بھی طالبان قیادت اور اس کے فیصلہ سازی کے عمل کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں جس پر افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے ان کی سرزنش بھی کی گئی تھی ،

 طالبان نے اپنے فقہ کی شریعت کے مطابق جو سخت گیر  نظام حکومت نافذ کر رکھا ہے اس کی  وجہ سے اب تک کسی بھی ملک نے امارات اسلامی افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر نظر آتے ہیں ، فوکس نیوز کا مزید کہنا ہے کہ افغان طالبان کے لئے یہ بات لمحہ فکریہ ہونی چاہیئے کہ جو بات دنیا عرصے سے ان کے بارے میں کہتی آرہی ہے اب وہ آواز ان کے اپنے اندر سے آ رہی ہے ، اگر انہوں نے اس آواز پر دھیان نہ دیا اور اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہ کی تو آنے والا وقت ان کیلئے مزید مشکل ہو جائے گا۔

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر

مزیدخبریں