غزہ کے شہریوں کی تکالیف کا ’خاتمہ ہونا چاہیے،‘ فرانسیسی صدر

Apr 16, 2025 | 00:06:AM
غزہ کے شہریوں کی تکالیف کا ’خاتمہ ہونا چاہیے،‘ فرانسیسی صدر
کیپشن: تصویر، فائل
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پر واضح کیا ہے کہ غزہ کے شہریوں کی تکالیف کا ''خاتمہ ہونا چاہیے‘‘ اور یہ کہ غزہ میں جنگ بندی ہی باقی اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کرا سکتی ہے۔

فرانسیسی صدر نے آج منگل 15 اپریل کو نیتن یاہو کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''غزہ کی شہری آبادی جس آزمائش سے گزر رہی ہے، اسے ختم ہونا چاہیے۔‘‘ انہوں نے اس محصور فلسطینی پٹی میں ''انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی راستے کھولنے‘‘ کا مطالبہ بھی کیا۔

صدر ماکروں کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ پٹی کا انسانی بحران قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے اور یہ کہ کئی ہفتوں سے غزہ میں کوئی امداد نہیں پہنچی۔ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے پیر کے روز کہا تھا کہ اسرائیل نے اس شرط پر غزہ میں 45 دن کی جنگ بندی کی پیشکش کی ہے کہ حماس غزہ میں قید بقیہ اسرائیلی یرغمالیوں میں سے نصف کو رہا کر دے۔

حماس کے ایک رہنما نے خبر رساں ادارے  اے ایف پی کو بتایا کہ اسرائیل نے غزہ کی جنگ کے خاتمے کے لیے فلسطینی عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا، لیکن اس رہنما کے بقول یہ کہہ کر اسرائیل  ایک 'سرخ لکیر‘ عبور کر گیا۔

صدر ماکروں کا کہنا تھا کہ  انہوں نے نیتن یاہو سے کہا کہ ''تمام یرغمالیوں کی رہائی‘‘ اور ''حماس کو غیر مسلح کرنا‘‘ اب بھی فرانس کے لیے ایک مکمل ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ''جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، انسانی بنیادوں پر امداد، اور پھر آخر کار سیاسی سطح پر دو ریاستی حل کے امکانات کے دوبارہ کھولے جانے‘‘ کی امید رکھتے ہیں۔

فرانسیسی صدر نے گذشتہ ہفتے اسرائیل کو یہ کہہ کر  ناراض کر دیا تھا کہ  ان کا ملک جون میں نیو یارک میں اقوام متحدہ کی کانفرنس کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کر سکتا ہے۔ اسرائیل کا اصرار ہے کہ غیر ملکی ریاستوں کے اس طرح کے اقدامات قبل از وقت ہیں۔ لیکن ماکروں نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے نہ صرف دیگر اقوام کو اس کی پیروی کرنے کی ترغیب ملے گی بلکہ وہ ممالک بھی جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔