ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ان دنوں فائر وال کا بڑا ذکر ہے یہ فائر وال کیا ہے؟اسے لگانا کیوں ضروری تھا اور کن کن ممالک کے ایجنٹس کو اس فائر وال سے آگ لگی ہے صرف اس کا مطالعہ ہی باریک بینی سے کرلیں تو تمام حقائق کُھل کر سامنے آجائیں گے کہ یہ فائر وال لگانا کیوں اتنا ضروری ہے اور کیا اس طرح کے انتظامی فیصلے کرنا انسانی حقوق کے منافی ہے ؟ یہ ہے وہ سوال جو آج ہر پاکستانی کے ذہن میں اُٹھ رہا ہے اور اب تو پاکستان کے نامور صحافی حامد میر نے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن کے ذریعے فائر وال کو چیلنج کیا ہے ہم تک موصول ہونے والی معلومات کے مطابق اُن کی پٹیشن میں کم و بیش جو سوالات اٹھائے گئے ہیں یا عدالت سے جو استدعا کی گئی ہے اس کے ۔
سینئر صحافی حامد میر نے وکیل ایمان مزاری کے ذریعے درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر کرنے والی فائر وال کی تنصیب کو روکا جائے فائر وال کی تنصیب تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور بنیادی حقوق کے تحفظ سے مشروط قرار دی جائے،ذریعہ معاش کیلئے انٹرنیٹ تک رسائی کو آئین کے تحت انسانی بنیادی حقوق قرار دیا جائے،فریقین سے فائر وال سے متعلق تمام تفصیلات پر مبنی رپورٹ طلب کی جائے درخواست پر فیصلہ ہونے تک فائر وال کی تنصیب کا عمل معطل کردیا جائےشہریوں کی بلا تعطل انٹرنیٹ تک رسائی کو یقینی بنانے کے احکامات دیئے جائیں،درخواست میں سیکرٹری کابینہ، سیکرٹری آئی ٹی ٹی، سیکرٹری داخلہ کو فریق بنایا گیا ہے پی ٹی اے، وزارت انسانی حقوق بھی فریقین میں شامل ہیں ۔
حامد میر صحافتی حلقوں میں اپنے سوالات کی ادائیگی بے باکی کے باعث جانے جاتے ہیں اس پٹیشن میں جو انہوں نے دائر کی ہے چند سوالات کو جنم دیا ہے ، انہوں نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے حالانکہ یہ فائر وال تو جھوٹے پراپیگنڈے اور جھوٹے بیانئے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام مقتدر اداروں کے خلاف چلائے جانے والے ٹرینڈز کو جو بیشتر جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں کو روکے گی، دنیا بھر میں تو بڑے بڑے ممالک صرف اسرائیل کے خلاف بیانیے اور "ہولو کاسٹ " لکھنے پر کارروائیوں کا آغاز کر دیتے ہیں کیا اُن کے خلاف کبھی آواز اٹھائی؟ کیا امریکہ کے پینٹا گون اور برطانیہ کی ایم آئی سکس ، بھارت کی را ، اسرائیل کی موساد اور افغانستان کی جی ڈی اے ( دی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلیجینس ) کے خلاف۔ وہاں کا سوشل میڈیا کچھ چلا سکتا ہے؟ آپ نے جناب اپنی درخواست میں لکھا ہے کہ ذریعہ معاش کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی کو انسانی بنیادی حقوق قرار دیا جائے ۔آپ سے پوچھنا تھا کہ کیا فیک آئی ڈیز ، فیک اکاؤنٹ ، فیک نیوز ، اور جعلی افواہ سازی کوئی ذریعہ معاش ہے اور اسے دنیا کے کس ملک میں باقائدہ کوئی شعبہ یا ذریعہ معاش قرار دیا گیا ہے ؟ کوئی ریفرنس بھی ساتھ دیتے کیونکہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق آن لائن جائز بزنس کرنے یا صحیح معلومات پہنچانے پر تو یہ فائر وال کوئی ایکشن نہیں لے گی، ہاں البتہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو نقصان پہنچانے یا دہشت گردوں تک پیغام رسانی کا ذریعہ بنانے اور ملکی اداروں کے امیج کو نقصان پہنچانے کی بات کی جائے گی تو کیا ملکی ادارے حرکت میں نہیں آئیں گے ۔یہ بھی ساری دنیا میں رائج قانون ہے کہ کوئی بھی ایسی پوسٹ نہیں کر سکتا جو ملکی مفاد سے متصادم ہو اگر کوئی ایسا ملک ہے تو سر آپ کو لکھنا چاہیے تھا ۔
ضرورپڑھیں:فیض حمید اور عمران خان کا کبوترپکڑا گیا ،بڑی گرفتاری ابھی باقی ہے
سرعمران خان کی سابق وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری صاحبہ کی جانب سے آپ کے نام کے ساتھ جو استدعا کی گئی ہے اُس کے مطابق فائر وال کو اس کیس کے فیصلے تک موخر کردیا جائے۔ حامد میر صاحب کیا آپ کو ہمارے عدالتی نظام کی کمزوریوں اور مصروفیات کا علم نہیں ؟ اگر کیس چل پڑا اور دور تلک گیا یا لمبے عرصے تک چلا تو کیا وہ بیانیہ جو ریاستی مفادات کے خلاف ہے اسے چلنے دیا جائے ؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جھوٹ کا کاروبار جو یوٹیوبر سے ایکس اور سوشل میڈیا پر پھیلا ہوا ہے اسے چلنے دیا جائے؟ میرا خیال ہے آپ ایسا ہرگز نہیں چاہیں گے ؟ جناب آج بھی لوگ آن لائن جائز کام کر رہے ہیں اور کما رہے ہیں ، میں بھی ایک ادنیٰٰ سا صحافی ہوں تمام سوشل میڈیا ایپس استعمال کرتا ہوں لیکن کبھی میں نے یہ شور نہیں مچایا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے لیکن ایسا واویلا ایک مخصوص طبقہ ہی کیوں مچاتا ہے؟ اور اگر مچاتا ہے تو اور زور سے مچائے، آپ بھی اپنی حب الوطنی کے باعث ایسے تمام عناصر کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیں گے جو ملکی مفاد میں غیرملکی ڈالرز یا بھارت نوازی میں آخری حد تک پہنچ جاتے ہیں ہم تو اس بات پر پاکستانی اداروں کے شکر گزار ہیں کہ اُس نے اُس فیک پراپیگنڈے کے سامنے بند باندھنے کی کوشش تو کی جو ہماری آنے والی نسلوں کے اذہان میں زہر بھر رہا ہے یہ ایک ایسی سلو پوائزننگ ہے جس نے نوجوانوں کو وطن سے دور دشمن کے ہاتھوں میں پہنچا دیا ہے ۔
جناب حامد میر صاحب ’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ‘سچ کو چھپایا نہیں جاسکتا چاہے۔ سات پردے اور سو فائر وال ہوں لیکن جھوٹ کا راستہ روکنا ہوگا ۔چاہے کسی کو آزادی تو دی جاسکتی ہے مادر پدر آزادی نہیں چاہے بولنے والا کتنا ہی معتبر کیوں نا ہو ۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر