(ویب ڈیسک)سانحہ مشرقی پاکستان کو رونما ہوئے 51برس بیت چکے ہیں مگر محب وطن پاکستان بھولے ہیں نہ ہی اقتدار ومفاد پرست طبقوں نے سبق حاصل کیا ہے اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں نے عبرت حاصل کی ہے۔
16دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جس کے اوراق پاکستانیوں کیلئے درد ناک الفاظ بنگالی بھائیوں ،مظلوم ومعصوم بچوں ، بوڑھوں ،خواتین او ر ان نوجوان عورتوں کی آہوں سسکیوں سے بھرے ہوئے ہیں جنہیں بھارت کی بدنام زمانہ دہشت گردخفیہ ایجنسی ”را “ کی تیار کردہ” مکتی با ہنی “ تنظیم کے سفاک گوریلوں نے مظالم کا نشانہ بنا یا۔پاک فوج کی وردیاں زیب ِتن کرکے بنگالی خواتین کی عصمتیں تار تار کیں۔ جس کی وجہ سے بنگالی قوم میں پاکستان اور پاک فوج کے خلاف نفرت پیداہوئی اور وہ مغربی پاکستان اور پاک فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
صدیق سالک کی کتاب ” میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ میں مغربی پاکستان کی بیوروکریسی اور سیاستدانوں کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ واقعات کچھ مختلف تھے۔ دراصل بھارتی ،اسرائیلی اور امریکی گٹھ جوڑ سے ایسے حالات پیدا کئے گئے تھے۔پاک فوج سے1965 کی پاک بھارت جنگ میں شکست کا بدلہ چکانے کیلئے بھارت بدحواس ہوچکا تھا۔ وہ ایسے موقع کی تلاش میں تھا جب پاکستان میں افراتفری پیدا ہو اور وہ پاکستان کے اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھائے۔
یہی کچھ ہوا 1970 کے عام انتخابات کے نتائج کچھ اس طرح آئے کہ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان میں 161نشستیں حاصل کیں جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے میر ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان سے81سیٹیں لیں۔ اس طرح حاکم علی زرداری آزاد حیثیت سے سندھ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر پی پی پی میں شامل ہوئے تھے۔اس طرح پی پی پی کی مغربی پاکستان میں کل82سیٹیں ہوگئیں۔1970 میں ہر شخص کو ووٹ کا حق ملنے کے بعد پہلی مرتبہ انتخابات ہورہے تھے۔ جبکہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دور میں پہلے BDممبرز منتخب ہوتے تھے پھر بی ڈی ممبر قومی اسمبلی کے ممبران منتخب کرتے تھے۔ اس طرح بی ڈی ممبرزکو سرکاری طور پر کنٹرول کرکے ووٹ مرضی کے امیدوار کو دینے پر مجبور کیا جاسکتا تھا جو مشکل کام ضرور تھا مگر ناممکن نہیں۔
ہر فرد کو ووٹ کا حق حاصل ہونے کے بعد سرکاری مشینری کیلئے فرداً فرداً لوگوں کو کنٹرول کرنا ممکن نہ رہا۔ جس سے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن مغربی پاکستان ، بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کرکے پاپولر ہوچکے تھے تو مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کا ” طوطی “ اور پی پی پی کا جادو سر چڑھ کر بول رہاتھا۔دونوں اطراف سے عوام کو قائل کرنے کیلئے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔جب انتخابات کا رزلٹ سامنے آیا تو بھٹو صاحب اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان رسمی رابطہ ہوا اور ایک دوسرے کو کامیابی پر مبارک باد دی گئی۔
ایک نومولود اخبار نے اس ملاقات کی سپر لیڈ لگائی کہ ” اِدھر ہم ا±دھر تم “ جس پر ملک بھر میں کافی شور برپا ہوا۔محب وطن طبقوں اور سیاسی مخالفین نے اس بات کو ملک توڑنے کی ابتدا قرار دیا۔دشمن قوتیں طاق میں تھیں۔انہوں نے ” را “ کی تیار کردہ ” مکتی با ہنی“ تنظیم کو مشرقی پاکستان میں اتار دیا۔ بنگالیوں میں احساس محرومی پہلے ہی پیدا کردیاگیا تھا۔
شیخ مجیب الرحمن زمانہ طالب علمی کے دور سے ہی بھارتی خفیہ ایجنسی کے آلہ کار بن چکے تھے۔انہوں نے قائداعظم سے بھی احتجاج کیا تھا۔ بنگالی ٹیچرز مشرقی پاکستان میں نوجوانوں میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بورہے تھے کہ کیا ہم نے برطانیہ سے آزادی حاصل کرکے مغربی پاکستان کے غلام رہنا ہے۔عام انتخابات کی مہم میں بھٹو صاحب اور شیخ مجیب الرحمن یعنی دونوں اطراف سے تقاریر کی وجہ سے انتخابات کا رزلٹ ہی دو الگ الگ حصوں میں آیا۔بھٹو صاحب کے منشور ” روٹی، کپڑا اور مکان“ میں کافی کشش تھی۔
پھر قیام پاکستان کے بعد عوام نے آزادی کا ذائقہ چکھا تھا۔حالانکہ ملک پوری طرح پاﺅں پر نہ کھڑا تھا کہ1965 کی جنگ سے پہلے بھی جنگ ہوئی تھی اور اقتدار جنرل ایوب خان کے پاس آنے کے بعد ملک نے ترقی کی منازل طے کئے تھے۔ڈیم بنائے گئے ، صنعتی و زرعی ترقی ہوئی۔ اس دور حکومت کو صدارتی طرز نظام کہا جاسکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے صدر ایوب خان ، صدر جنرل ضیا الحق، صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں خاصی ترقی کی تھی اور جمہوریت کے علمبردار اس بات کو نہیں مانتے جبکہ عام شہری کو انہی ادوار میں ریلیف حاصل رہا ہے۔بھٹو دورمیںمزدوروں اور غریبوں کو رہنے کیلئے مفت زمینیں دیکر مکان کا نعرہ سچ کردکھایاجبکہ باقی ادوار میں غریبوں کیلئے اپنا مکان بنانا ایک خواب رہا۔
خیر ذکر ہو رہا تھا ”سقوط ڈھاکہ“ کے حوالے سے16دسمبر کوبیرونی عالمی طاقتوں کے انڈیا کے ساتھ گٹھ جوڑ سے پاک فوج کو ہتھیار ڈالنے کی سازشوں کو پروان چڑھایا گیا اور دنیا بھرمیں پاک فوج کی شکست کے ”باجے “بجاکر بھارت نے دعویٰ کیا کہ90ہزار فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرکے جنگی قیدی بنایا گیا ہے۔حالانکہ یہ دعویٰ سراسر غلط بے بنیاد ہے۔ اس میں سویلین ، رضا کاروں اور مختلف محب وطن سماجی تنظیموں کے نہتے لوگوں کو بھی بھارتی افواج نے ” مکتی با ہنی “ گوریلوں کے ذریعے یرغمال کرکے جنگی قیدی بنایا گیا تھا جو مسلح افواج کے زمرے میں نہیں آتے تھے۔اس سے پاکستان میں سیاسی رسہ کشی ،افراتفری سے فائدہ اٹھایا گیا۔
مشرقی پاکستان میں مکتی با ہنی کے مظالم کو پاک فوج کی طرف سے رنگ دیکر ” انارکی “ پیدا کی گئی اور پاک فوج کو عالمی صہیونی سازشوں اور بھارتی خفیہ ایجنسی ” را “ کے ذریعے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا گیا۔پاک فوج نے صرف6سال قبل1965 میں اپنے سے 10گنا بڑی بھارتی فوج کو شرمناک شکست دی تھی۔اس کا بدلہ چکانے کیلئے بھارت نے اسی دن عالمی قوتوں کی مدد سے پلاننگ کی اور پاکستان میں سیاسی حالات کا فائدہ اٹھانے کیلئے حالات پیدا کئے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے قتل کی سازش کا الزام، تسنیم حیدر شاہ نے شریف فیملی کیخلاف بیان ریکارڈ کرا دیا