سانحہ اے پی ایس پشاور :دکھ کی ایک داستان
حافظہ فرسہ رانا
Stay tuned with 24 News HD Android App
(حافظہ فرسہ رانا )پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر ہمیشہ ایک سیاہ دن کے طور پر محفوط رہے گا۔ کیونکہ اس دن پاکستان کو دو لخت تو کیا ہی گیا تھا مگر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر پاکستان کو ایک اور گہری چوٹ بھی پہنچائی گئی۔ دلوں کو دہلا دینے والے مناظر جب 16 دسمبر کو اے پی ایس پشاور سے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر عوام کے سامنے آئے تو اس واقعے نے پوری قوم کو بِلا کسی مذہبی و سیاسی تفریق کے یکجا کر دیا۔ ہر کسی کی جانب سے اس دلسوز واقعے کی مذمت کی گئی اور ان دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دینے کا پُرزور مطالبہ بھی کیا گیا۔۔ خیبر سے کراچی تک پورے پاکستان کا قریہ قریہ کُوچہ کُوچہ ان معصوموں کو بے دردی سے شہید کرنے پر سوگوار تھا۔ بلا شبہ یہ ایک قومی سانحہ تھا جس نے ہر پاکستانی کے دل کو زخمی کیا اور ہر آنکھ جس پراشکبار ہوئی۔ اور پورے پاکستان کی سول سوسائٹی کی جانب سے اس لادین اور ظلم و بربریت کا پرچار کرنے والی دہشت گردانہ اور شر پسندانہ سوچ کو رد کر دیا گیا، جو کہ بہت سی ماؤں کی گودیں اجاڑنے اور بے شمار خاندانوں سے انکی زندگیوں کا واحد سہارا چھیننے کا باعث بنی۔ پاکستان کے تمام روایتی اور غیر روایتی حریفوں، بالخصوص اندرونِ ملک دشمن قوتوں کو ایک سخت گیر پیغام دیا گیا۔ اور یہی اندوہ ناک واقعہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ایک واضح پالیسی اور متفقہ لائحہ عمل” نیشنل ایکشن پلان” کی صورت میں مرتب کرنے کا باعث بھی بنا۔
سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کا سورج معمول کے مطابق طلوع ہوا ۔ آنکھوں میں خواب سجائے آرمی پبلک اسکول پشاور کے طلبا اور طالبات نے اسکول کا رخ کیا کہ اس دوران دس بچ کر چالیس منٹ پر چھ دہشت گردوں نے اسکول پر حملہ کر دیا ۔انسانیت کے لفظ سے ناآشنا افراد نے ایک سو بتیس بچوں سمیت ایک سو انچاس افراد کو شہید کر دیا۔اس سانحے سے بہادری اور جرات کی کئی داستانیں بھی جڑ گئیں ۔پشاور کی فضا دھماکوں اور گولیوں کی آوازوں سے گونج اٹھی، جدید اسحلے سے لیس امن دشمنوں نے نہتے بچوں اور اساتذہ کو نشانہ بنایا۔سانحہ آرمی پبلک اسکول کو 8سال بیت گئے مگر قوم کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔
پرنسپل آرمی پبلک اسکول طاہرہ قاضی کی فرض شناسی برسوں یاد رکھے جائے گی ۔ بہادر خاتون نے اپنی جان قربان کردی لیکن دہشت گردوں اور بچوں کے بیچ دیوار بن کر کھڑی رہیں۔
سولہ دسمبر کے دن اس سانحے کے زخم تو تازہ ہو جاتے ہیں مگر قوم کے عزم، حوصلے اور جرات نے ان الفاظ کو ایک نئی تعریف دے دی۔بزدل دہشت گردوں نے اسکول پر حملہ کرکے علم کی شمع بجھانا چاہی ۔ مستقبل کے معماروں کو نشانہ بنایا مگر قوم کے حوصلے پست نہ کر سکے ۔بچوں سے ان کے خواب تو چھین لیے مگر والدین کے عزم کو کمزور کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ لہو سے جلے علم کے چراغ آج بھی روشن ہیں۔ اپنے پیاروں اور لخت جگر کو کھونے والوں کے حوصلے بلند ہیں۔
سانحہ اے پی ایس کے بعد قوم اور سیکیورٹی اداروں نے نئے عزم کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اوران پر پاک دھرتی کی زمین تنگ کر دی۔
معصوم بچوں پرحملہ کرنے والے دہشت گردوں کو افواج پاکستان نے اسی وقت آپریشن میں جہنم واصل کردیا اور ان کے سہولت کار بھی اپنے انجام کو پہنچ گئے ۔