(24نیوز)اسلام آبادہائیکورٹ نے سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں منگل کو فیصل واوڈا نے الیکشن کمیشن کی جانب سے تاحیات نااہلی کو چیلنج کیا تھا، بدھ کو ان کی درخواست پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی ۔درخواست کی سماعت کے آغاز پر فیصل واوڈا کے وکیل وسیم سجاد نے اپنے دلائل میں بتایا کہ الیکشن کمیشن نے میرے موکل کو جھوٹے بیان حلفی کی بنیاد پر نااہل قرار دیا ہے اور انہیں تمام تنخواہیں، مراعات دو ماہ میں واپس کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔فیصل واوڈا نے جون 2018 ءمیں کاغذات نامزدگی کیلئے بیان حلفی جمع کرایا تھا، پھر 3 مارچ کو بطور رکن قومی اسمبلی استعفا دے دیا تھا،اب فیصل واوڈا بطور رکن اسمبلی مستعفی ہوچکے اور الیکشن کمیشن نے بطور سینیٹر بھی نااہل قرار دے دیا۔وسیم سجاد ایڈووکیٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں، اس کے پاس اختیار نہیں تھا کہ نااہل قرار دیتا،الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا فیصلہ نہیں سنا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں:بالی وڈ راک اسٹاربپی لہری انتقال کرگئے
چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے اپنے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ کا آرڈر تھا کہ بیان حلفی غلط نکلا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے، کیا کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے قبل شہریت چھوڑی تھی یا نہیں؟وکیل فیصل واوڈا نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جھوٹے بیان حلفی کیلئے توہین عدالت کا لفظ نہیں لکھا گیا، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ قانون ہے جس میں کئی قانون سازوں کو نااہل بھی کیا گیا، اس کیس کو چھوڑ کر سمجھا دیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیاکہ کیا فیصل واوڈا نے امریکی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ کہیں جمع کرایا؟ ایڈووکیٹ وسیم سجاد بولے پٹیشنر نے کہیں بھی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ پیش نہیں کیا۔ایڈووکیٹ وسیم سجاد نے جواب دیاکہ جھوٹا بیان حلفی آئے تو انکوائری کے بعد کورٹ آف لا کو کارروائی کا اختیار ہے۔اس پر ہائیکورٹ نے کہاکہ وہ اپنی نیک نیتی ثابت کرتے اور سرٹیفکیٹ پیش کرتے، عدالتی فیصلے کے بعد ذمہ داری پٹیشنر پر تھی کہ شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ پیش کرتا۔
یہ بھی پڑھیں:بہادری کی مثال قائم۔بھارت میں مسلم نوجوان نے جان پر کھیل کر لڑکی کو بچا لیا
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیاکہ اگر الیکشن کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ بیان حلفی جھوٹا ہے تو کیا کرتا،؟صرف یہ بتائیں فیصل واوڈا کیسے صاف نیتی ثابت کرتے ہیں؟وسیم سجاد ایڈووکیٹ نے کہاکہ الیکشن کمیشن بیان حلفی کی انکوائری کرسکتا ہے، دیکھنا ہوگا اس کے بعد کیا پراسیس ہے؟،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا الیکشن کمیشن انکوائری کرکے کیس سپریم کورٹ کو بھجوائے۔ایڈووکیٹ وسیم سجاد نے کہاکہ یہ بات شہادت سے ثابت ہوسکتی ہے کہ جان بوجھ کر جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا گیا، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اب آپ پٹیشن آئینی عدالت لائے ہیں تو یہ کورٹ نااہلی کا فیصلہ سنا دے؟چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ یہ بتادیں سپریم کورٹ میں کوئی جھوٹا بیان حلفی جمع کرائے تو اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں؟،وسیم سجاد نے جواب دیاکہ بیان حلفی چھوٹا ثابت ہو تو اس کے خلاف کیس چلایا جا سکتا ہے۔وسیم سجاد ایڈووکیٹ نے کہا کہ فیصل واوڈا کا بیان حلفی جھوٹا بھی ثابت ہو تو وہ صرف بطور رکن قومی اسمبلی نااہل ہوسکتے تھے،وہ بطور رکن اسمبلی مستعفی ہوچکے، تاحیات نااہلی کا فیصلہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ جس الیکشن کیلئے بیان حلفی جمع کرایا گیا صرف اسی نشست کیلئے نااہل ہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہے کیا الیکشن کمیشن ازخود کسی کو نااہل قرار دے سکتا ہے یا نہیں؟،اگر بیان حلفی کورٹ آف لا کے سامنے جھوٹا ثابت ہو تو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے،تاحیات نااہلی سیاست میں سزائے موت کی طرح ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پٹرول کی قیمت میں12روپے 3پیسے لٹر کا ہوشربا اضافہ
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا پٹیشنر کل تک اس عدالت میں امریکی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ پیش کرسکتے ہیں؟۔ دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا ۔بعد ازاں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست پرفیصلہ سنایا اور تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردی۔فیصلے میں کہا گیا کہ طویل عرصہ تک الیکشن کمیشن اور کورٹ کے سامنے فیصل واوڈا تاخیر کرتے رہے، فیصل واوڈا نے شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے بھی انکار کیا۔یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی میں جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے پرتاجیات نااہل قراردیا۔