الیکشن سے یہ امیدیں اور خواہشات وابسطہ تھی کہ اس کے بعد ملک میں استحاکام آئے گا۔دو سال سے جاری کشیدگی میں کمی ہو گی اور ملک ایک نئی اور روشن منزل کی طرف رواں دواں ہوگا۔لیکن انتخابات کے رزلٹ اور اس پر برپا ہونے والے ہنگامے نے ملک کو ایک نئی اور پہلے سے زیادہ گہری کھائی طرف دھکیل دیا ہے۔ ملک کی تقریبا تمام جماعتیں کسی نہ کسی سطح پر ان الیکشنز پر سوالات اٹھا رہی ہیں ۔پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ احتجاج اور تحریکیں چلانے کا اعلان کر رہی ہیں ۔آج تحریک انصاف کی جانب سے ہفتے کے روز پورے ملک میں انتخابات کے نتائج کیخلاف احتجاج کی کال دے دی ہے۔جس کا اعلان شیر افضل مروت اور بیرسٹر گوہر نے اڈیالہ جیل میں بانی تحریک انصاف سے ملاقات کے بعد کیا،پاکستان تحریک انصاف تضادستان بن چکی ہے۔جب سے اس پارٹی کے روح رواں اور بانی جیل گئے ہیں اس پارٹی کی حکمت عملی پل میں تولہ پل میں ماشہ جیسی صوتحال اختیار کر گئی ہے۔نئی شکل اختیار کر تی اس جماعت میں دو سے زیادہ گروپ بن چکے ہیں ۔ایک گروپ سیاستدانوں پر مشتمل پر مشتمل ہے جبکہ دوسرے گروپ کو کچھ وکلا لیڈ کر رہے ہیں ۔تیسرا عوام کی طرح وہ کنفیوذ گروپ ہے جو کبھی ایک کی طرف تو کبھی دوسرے کی طرف دیکھتا ہے ۔لیکن اسے بھی عوام کی طرح کچھ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ آخر تحریک انصاف کے درمیان کیا چل رہا ہے۔آج ہی کی مثال لے لیں تو اسد قیصر بیرسٹر سیف کے ہمراہ اڈیالہ جیل میں بانی تحریک انصاف سے ملنے گئے۔ملاقات کے بعد آکر انہوں نے جو باتیں کی وہ سیاستدانوں اور عوام دونوں کے لیے حوصلہ افزا تھی ، ایسا محسوس ہو ا کہ ایک عشرے سے جمر برف پگھلنا شروع ہو گئی اور بانی تحریک انصاف پیپلز پارٹی سمیت ،جمعیت علما اسلام کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں ۔اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے انکار کے بعد تحریک انصاف پارلیمنٹرین کے ساتھ بھی کوئی راہ رسم بڑھانے کی تجویز ہے۔ لیکن عوام اور خود تحریک انصاف کے ووٹر سپورٹرز کی امیدیں پر پانی اس وقت پھرا جب بیرسٹر گوہر اور شیر افضل مروت کی قیادت میں ایک دوسرا گروپ بانی تحریک انصاف سے ملاقات کے لیے پہنچا۔ اس ملاقات کے بعد انہوں نے جو میڈیا ٹاک کی وہ اس سے بالکل مختلف تھی جو اس سے قبل اسد قیصر کر کے گئے تھے۔بیرسٹر گوہر اور شیر افضل مروت کے مطابق بانی تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی سے کسی بھی طرح کی بات چیت سے صاف انکار کیا ہے جبکہ پرویز خٹک کی جماعت کے ساتھ شمولیت کی خبروں کی بھی تردید کر دی،یہ پہلی بار نہیں کہ بانی پی ٹی اائی کے بعد نئی نمودار ہونے والی جماعت کے بیانات میں تضادات ہو۔متعدد بار ایسا ہو چکا ہے کہ جب وکلا بانی پی ٹی آئی سے ملنے جائیں تو اور بات کہتے ہیں جبکہ اسی دوران اگر کوئی سیاسی افراد بانی پی ٹی اائی سے ملاقات کریں تو ان کی بات کا ذاویہ بالکل الگ ہوتا ہے۔انٹر اپارٹی الیکشن کے وقت بھی یہی دیکھا گیا کہ جب شیر افضل مروت بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے لیے پہنچے تو اس کے بعد انہوں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا لیکن کچھ ہی لمحوں بعد بیرسٹر گوہر کی جانب سے اس کی تردید کر دی گئی،اسی طرح یہ گروپ جماعت کے اندر بھی ایک دوسرے سے شدید اختلاف کا شکار رہتے ہیں ۔جس کی مثال شیر افضل مروت اور شعیب شاہین کی چپکلش،اسی طر روف حسن اور شیر افضل اور حامد خان کے اختلافات سے دی جا سکتی ہے،کپتان ایک لیکن بیانات دو ،یہ وہ مسئلہ ہے جو تحریک انصاف کے ووٹر سپورٹر کو اس جماعت سے مایوس کر رہا ہے۔آج اسد قیصر کی میڈیا ٹاک کے بعد حالات اس قدر تیزی سے تبدیل ہوتے دکھائی دیے کہ پیپلز پارٹی جن کی خواہش تھی کہ تحریک انصاف احتجاج کی بجائے سیاست کے دھارے میں واپس آئے اس پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے ایک وڈیو بیان کے ذریعے تحریک انصاف کی آفر کا جواب دیا اور بتایا کہ ان کی مختلف جماعتوں سے بات چیت کے چھ رکنی کمیٹی پہلے سے ہی قائم ہے۔ تحریک انصاف اگر بات کرنا چاہتی ہے تو ان سے کر سکتی ہے۔مزید دیکھیے اس ویڈیو میں
پی ٹی آئی رہنماؤں میں اختلافات؟ایک بار پھر بغاوت؟
Feb 16, 2024 | 10:29:AM
Read more!