پرویز الہیٰ کی سیاسی شادی کا اناڑی نکاح خواں
عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
اچھا بھلا ہنستا بولتا ،کھاتا پیتا ،پیار و محبت کا پیکر انسان جب بہک جائے اور انسانوں میں سے نکل کر مصنوعی چمک کا شکار ہوجائے اور کسی جادو کے ذیر اثر الٹی سیدھی حرکتیں کرنے لگے تو سمجھ جائیں کہ وہ شخص " اب ہم میں یعنی انسانوں میں نہیں رہا" اور اگر ایسی حرکت کسی ادھیڑ عمر کے فرد سے ہوجائے تو کہا جاتا ہے بڈھا سٹھیا گیا ہے لیکن اگر ایسا ہی کوئی ادھیڑ عمر شخص پی ٹی آئی میں چلا جائے تو اچھے بھلے چودھری پرویز الٰہی کو کوئی اور نام دیا جائے گا یا یہ کہا جائے گا کہ’’یوتھیا‘‘ گیا ہے۔ اب یہی کہا جائے گا کہ چودھری پرویز الہیٰ عمر کے اس حصے میں جو سیاسی شادی کرنے جارہے ہیں اس کا فائدہ کسی ہمسائے کو ہی ہوگا چودھری صاحب کو نہیں شادی سے یاد آیا کہ یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ ایک خوبصورت کم عمر دوشیزا سے وہ نکاح کر چکے ہیں لیکن اُپر بولی گئی ہمسائے کے فائدے والی اصطلاح کو سیاسی ہی سمجھا جائے ازدواجی نہیں ۔
ضرور پڑھیں :ٹارزن کی واپسی اور پنجاب کی سیاست
چودھری پرویز الہیٰ کی سیاست پر اب انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ ہی لی جائے کہ وہ اپنے بیٹے مونس الہیٰ کے دباؤ میں اپنی سیاسی میراث کو پاکستان تحریک انصاف کے’’ گورا قبرستان‘‘ میں دفن کرنے کو تیار ہوگئے ہیں کل زمان پارک جسے آڈیو لیکس کے بعد " زنان پارک " بھی کہا جاتا ہے میں ہونے والی ملاقات میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیر اعلٰی پنجاب کو باقاعدہ تحریک انصاف میں شامل ہونے کی دعوت دی اور انہیں یہ بھی بتایا کہ اُن کے فرزند مونس الہیٰ بھی یہی چاہتے ہیں ویسے تو یہ بات پرویزا لہیٰ صاحب کو براہ راست مونس الہیٰ سے معلوم ہونا چاہیے تھی لیکن افسوس یہ بات انہیں عمران خان سے معلوم ہوئی جس سے ایک بات تو واضح ہے کہ پرویز الہیٰ کا سیاسی فرزند اور وارث مکمل طور پر پی ٹی آئی کے سحر میں مبتلا ہوگیا ہے اور اُس نے اپنی باپ کی وزارت اعلیٰ اور سیاست کو بھی عمران خان کی محبت میں قربان کر دیا ہے ۔
ایسا کیوں ہے کہ مونس الہیٰ اب مکمل طور پر عمران خان صاحب کے قابو میں ہیں اس حوالے سے چند سیاسی تجزیہ نگار عجب سا تبصرہ کرتے ہیں ان تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان کے وزارت عظمیٰ کے دنوں میں وہ ایک مرتبہ بنی گالا ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو مونس کو جس ڈرائینگ روم میں بٹھایا گیا وہاں ایک صوفہ ہوا میں تیرنا شروع ہوگیا جسے بعد ازاں اُن کے سامنے اس وقت کی خاتون اول بشریٰ بی بی المعروف پنکی پیرنی نے دوبارہ اپنی جگہ پر جانے کا حکم دیا تو صوفہ زمین پر آیا ،مونس کو پنکی پیرنی نے بتایا کہ یہ کام اُن کے موکل نے کیا ، اس جادوئی شعبدہ بازی کے بعد مونس الہیٰ اپنی سیاسی وراثت اور خاندانی عزت و وقار کو بھول گئے، پیر پرست مونس نے عملی طور پر "یوتھیا" ہونے کا فیصلہ کرلیا اور یہاں سے وہ اندھی تقلید کا سلسلہ شروع ہوا جو اب سیاست کے اندھے کنوئیں میں گرنے جا رہی ہے ، اُس خاص دن کے بعد مونس الہیٰ بشریٰ بی بی کے اشارئے ابرو پر چلنے اور کھیلنے لگے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اب چودھری پرویز الہیٰ بھی اسی اندھے سیاسی کنوئیں میں گرنے کو تیار ہوگئے ہیں ، اور اب کہا جا رہا ہے کہ ق لیگ کو پی ٹی آئی میں ضم کردیا جائےگا ۔
یہ بھی پڑھیں : دیپکا کا بے شرم رنگ اورخان کی ریڈ لائن
اگر دیکھا جائے تو یہ بات بنیادی اور آئینی طور پر ہی غلط ہے کیونکہ پاکستان مسلم لیگ جسے حضرت قائد اعظمؒ کے لاحقے کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے آئین سمیت ہر سیاسی و قانونی حوالے سے چودھری شجاعت حسین کی ملکیت ہے اور اُن کا یہ حق الیکشن کمیشن اور عدالت مان چکی ہیں لہذا اب اگر کوئی ضم ہوگا تو اپنے ذاتی فیصلے کے مطابق اس کی شمولیت پاکستان تحریک انصاف میں ہوگی ناکہ کسی پارٹی کی صورت میں اس بات کو اگرموجودہ سیاسی صورتحال میں کوئی سمجھنا چاہے تو آسان الفاظ میں چودھری پرویز الہیٰ اور مونس الہیٰ ذاتی حثیت سے دو رنگی پٹکا یا پٹہ اپنے گلوں میں ڈالیں گے وہ پوری جماعت کی شمولیت کے نا اہل ہیں اور نہ وہ یہ کام اصولی اور قانونی طور پر کر سکتے ہیں ، 2018 ء کے انتخابات میں جن افراد نے بھی پاکستان مسلم لیگ (ق)کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا تھا اُن کے ٹکٹ چودھری شجاعت نے جاری کیے تھے الیکشن کمیشن کا ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ چودھری پرویز الہیٰ اور مونس الہیٰ جس ٹکٹ پر انتخاب جیت کر آئے وہ سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین نے ہی جاری کیے تھے ، ہاں یہ بات الگ ہے کہ چودھری پرویز الہیٰ نے اپنی سابقہ روایات کے عین مطابق چودھری شجاعت حسین کو دھوکہ دیا اور سابق جنرل قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر پی ٹی آئی میں اپنی پارلیمانی قوت کو عمران خان کی جھولی میں ڈال دیا جس میں ذیادہ بڑا کردار اُن کے فرزند مونس الہیٰ نے سر انجام دیا ، یہ سب آئندہ وزارت اعلیٰ کے لالچ کے تحت کیا گیا کہ مونس الہیٰ اپنی کم عقلی اور کمزور سیاسی بصیرت کے تحت یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر وہ وفاداری نبھائیں گے تو بدلے میں انہیں بھی وفاداری ملے گی اور یوں وہ یا اُن کے والد گرامی آئندہ انتخابات میں وزیر اعلیٰ بنا دئیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں :قاسم علی شاہ جیسا سیاستدان چاہیے یا کچھ اور؟
اس پر صرف حسرت و یاس کا ہی مظاہرہ کیا جاسکتا ہے کہ کپتان کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ کبھی اپنے محسنوں کو معاف نہیں کرتا اور اُن کے خلاف وہ کام کرتا ہے جو وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی نہ کرے اور یہ عادت آج سے نہیں ہے عمران خان کو کرکٹ میں لانے کا سہرا خالہ زاد کزن ماجد خان کے سر ہے جن کا 70 کی دہائی میں کرکٹ کا طوطی بولتا تھا عمران خان ٹیم میں آئے تو سب سے پہلے ماجد خان کا پتا صاف کرنے کا پلان کیا ، سیاست میں لانے والے سرائیکی لیڈر معراج محمد خان سے شروع ہوجائیں اور جہانگیر خان ترین تک گنیں بے شمار نام آپ کو نظر آئیں گے جن کو خان صاحب نے اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا اور پھر یوں منہ پھیرا کہ کبھی پلٹ کر بھی نہ دیکھا ، اس کی تازہ مثال تو جنرل(ر)قمر جاوید باجوہ ہیں جن کے احسانات عمران خان صاحب پر اتنے ہیں کے جیسے کسی باپ کے اپنی اولاد پر لیکن نتیجہ کیا نکلا آج مطلب نکل گیا تو خان بھی یوٹرن لے گیا اور یوں بدلا کہ اپنی غلطیوں کا ملبہ بھی سابق آرمی چیف پر ڈال دیا ، مونس الہیٰ کے والد پرویز الہیٰ تو اس بات کا اقرار کرچکے کہ انہیں باجوہ صاحب نے ہی پی ٹی آئی جوائن کرائی تھی اور یوں مستقبل میں خان صاحب آپ کی شمولیت کا الزام بھی باجوہ صاحب پر لگائیں گے تو کچھ غلط نہ ہوگا ویسے عمران خان صاحب کہہ بھی چکے ہیں کہ انہوں نے پرویز الہیٰ سے وزارت اعلیٰ کا کوئی وعدہ نہیں کیا اس لیے آپ جیت بھی گئے تو وزیر اعلیٰ کو ئی بزدار شکل پپٹ ہی ہوگا مونس الہیٰ یا اُن کے والد پرویز الہیٰ نہیں ۔