عثمان بزدار کی گرفتاری پنجاب حکومت کا ہائی کورٹ جانے کا فیصلہ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک )پنجاب حکومت نے سابق وزيراعلي پنجاب عثمان بزدار کيخلاف اربوں روپے کی کرپشن کے شواہد حاصل کرلئے، سابق وزیراعلیٰ کے خلاف بڑے نام وعدہ معاف گواہ بننے کو آمادہ ہوگئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف اربوں روپے کی کرپشن کی گتھی سلجھنا شروع ہوگئی ہے، اور پنجاب حکومت نےعثمان بزدار کے خلاف مزید بڑےشواہد حاصل کر لیے ہیں، جب کہ سابق وزیراعلیٰ کے خلاف بڑے نام وعدہ معاف گواہ بننے کو تيار ہوگئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکومت پنجاب کو سابق وزیراعلی پنجاب کے دو فرنٹ مینز سے اہم شواہد موصول ہوئے ہیں، اور ان فرنٹ مینوں کے نام پر بینک اکاؤنٹس کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب کے فرنٹ مین کے طور پر محکمہ آبپاشی کے ایکسین عظیم بلوچ کا نام بھی سامنے آیا ہے، جب کہ عثمان بزدارکے سابق اسٹاف افسران کا بزدار اور فرح خان کے حوالے سے چشم کشا انکشافات کئے جانے کا بھی امکان ہے۔
رپورٹ کے مطابق عثمان بزدار کے پھوپھا امیرتیمورکے خلاف بھی کرپشن اور کک بیکس کے مزید شواہد حاصل کر لیے گئے ہیں، جب کہ نیب اوراینٹی کرپشن نے بزدار کی اربوں روپے کی انویسٹمینٹ کے شواہد بھی حاصل کرلیے ہیں، اور رپورٹس کی بنیاد پر بزدارسرکار کے خلاف کاروائیاں تیز کردی گئی ہیں۔
دوسری جانب عثمان بزدار اور ان کے فرنٹ مینوں کے خلاف شواہد وزیراعظم اوروزیراعلی پنجاب کو بھی بھجوا دیئے گئے ہیں، اور پنجاب حکومت نے سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی گرفتاری کے لیے لاہورہائیکورٹ میں شواہد دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان متعدد بار عثمان بزدار کو بہترین وزیراعلیٰ قرار دیتے ہوئے انہیں وسیم اکرم پلس بھی قرار دیتے رہے ہیں۔
پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازہ خان کی تحصیل تونسہ سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار 2018 میں پہلی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ عثمان بزدار تونسہ اور بلوچستان کے قبائلی علاقے میں آباد بزدار قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔سردار عثمان بزدار کے والد سردار فتح محمد خان اپنے قبیلے کے سردار تھے، وہ تین مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہوں نے ایک اسکول میں استاد کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
عثمان بزدار نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر کیا اور وہ 2008 تک مسلم لیگ ق کے تحصیل ناظم رہے۔سال 2008 میں انہوں نے مسلم لیگ ق چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن میں حصہ لیا، تاہم ہو ناکام رہے۔
سال 2018 کے عام انتخابات سے قبل انہوں نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شمولیت اختیار کی، تاہم انتخابات سے قبل خسرو بختیار کی سربراہی میں بننے والا یہ گروپ تحریک انصاف میں ضم ہوگیا۔