(24 نیوز)وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کا عمل پچاس فیصد تک مکمل ہو چکا ہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے ،اگلے چند ہفتے اور مہینے نہایت اہم ہیں جن میں معاملات سلجھ بھی سکتے ہیں اور ان میں بگاڑ بھی آ سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہم امن اور استحکام کے ساتھ کھڑے ہیں،دنیا آج افغانستان میں قیام امن کیلئے ہماری کوششوں کو سراہ رہی ہے۔افغانستان سے اتحادی افواد کے انخلا کے بعد افغان قیادت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس صورت حال کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے، مل بیٹھ کر افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالیں ۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ جنگ و جدل سے افغانستان میں پہلے ہی بہت نقصان ہو چکا ہے ۔اگر افغانستان میں حالات نوے کی دہائی کی طرف پلٹتے ہیں یا خانہ جنگی شروع ہوتی ہے تو یہ افغانوں کیلئے مزید نقصان کا باعث ہو گا ۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ابھی پاکستان میں آئے ہوئے افغان دانشوروں کے وفد سے میری ملاقات ہوئی ،میں نے ان کے سامنے پاکستان کا نکتہ نظر رکھا اور ان کے سوالات کے مفصل جوابات دیے تاکہ کسی طرح کا کوئی ابہام نہ رہے ۔ہماری افغان قیادت کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ ہو چکی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ ہماری بھی یہ واضح پالیسی ہے کہ ہم افغانستان یا کسی بھی تیسرے ملک کے خلاف اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دیں گے۔
دوسری جانب وزیر خارجہ کا مقبوضہ کشمیر سے متعلق حالیہ پریشان کن خبروں کو اجاگر کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو خط لکھ دیا۔وزیر خارجہ کا خط اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب نے نیو یارک میں سلامتی کونسل کے صدر کے حوالے کیا۔
خط میں ان رپورٹس پر پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں مزید غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کرنے پر غور کر رہا ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے حصے بخرے کرنے کے لئے مزید تقسیم اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے جیسے ناجائز اقدامات کرنا چاہتا ہے
خط میں مقبوضہ کشمیر کے مسلسل فوجی محاصرے کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے ، جو بائیس ماہ سے جاری ہے۔فوجی محاصرے کا مقصد کشمیریوں کے انسانی حقوق کی مجموعی اور منظم خلاف ورزیوں سمیت بڑے پیمانے پر جبر کے ذریعے ان کے جائز مطالبات کو دبانا ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارت کی غیرقانونی اور یکطرفہ کارروائیوں کے بعد سے ، بھارتی قابض افواج نے سیکڑوں کشمیریوں کو قتل ، تشدد ، آزادانہ طور پر گرفتار اور نظربند کیا ہے۔پوری کشمیری قیادت سمیت ہزاروں افراد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے اجرا جیسے دیگر اقدامات کے ذریعہ مقبوضہ کشمیر کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی ڈھانچے میں تبدیلی کا مقصد کشمیری عوام کی حق خود ارادیت کے مطالبے کو کمزور بنانا ہے۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں 1951 سے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کر رہا ہے۔5 اگست 2019 کو اور اس کے بعد شروع کئے گئے اقدامات بھارت کی اسی پالیسی کا حصہ ہیں۔بھارت کی جانب سے یکطرفہ تبدیلیاں ، سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن سمیت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی متصور ہوں گی۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے لوگوں نے بھارت کی طرف سے عائد غیر قانونی اقدامات کو بھرپور انداز میں مسترد کردیا ہے۔
وزیر خارجہ نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے تنازعہ پر اپنی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے اپنی ذمہ داری پوری کرے۔وزیر خارجہ نے سلامتی کونسل سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت سے مطالبہ کرے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جبر کی اپنی مہم کو ختم کرے۔بھارت پر زور دیا جائے کہ وہ 5 اگست 2019 سمیت اپنی تمام غیر قانونی کارروائیوں کو واپس لے۔بھارت سے کہا جائے کہ وہ مقبوضہ جموں کشمیر میں کسی بھی طرح کی یکطرفہ تبدیلیوں کو مسلط کرنے سے باز رکھے۔
یہ بھی پڑھیں: سپیکر قومی اسمبلی کیخلاف بھی تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان
افغانستان کا امن پورے خطے کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ شاہ محمود قریشی
Jun 16, 2021 | 17:50:PM