پاکستان میں موٹاپا تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ماہرین نے خبر دار کر دیا

Mar 16, 2022 | 19:00:PM

 (ویب ڈیسک) موٹاپا دنیا کو درپیش صحت عامہ کا سب سے بڑا چیلنج ہے جو ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول، دل کی بیماریوں سیمت کینسر جیسی متعدد پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 800 ملین افراد موٹاپے کا شکار ہیں۔ پاکستان میں بھی موٹاپا تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی بینادی وجہ طرززندگی میں بے احتیاتی اور غیر متوزن کا استعمال ہے۔ موٹاپے پر قابو پانے سے صحت مند اور خوشگوار زندگی گزارنے کا موقع حاصل ہوسکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار ماہرین نے اسکول آف پبلک ہیلتھ، ڈا¶ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور پرائمری کیئر ذیابیطس ایسوسی ایشن (PCDA) کی جانب سے اوجھا کیمپس میں عالمی یوم موٹاپا کے موقع پر منعقدہ عوامی آگاہی سمپوزیم سے خطاب میں کیا۔ ماہرین میں اسکول آف پبلک ہیلتھ اور ڈائریکٹر ریسریچ پروفیسر کاشف شفیق، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ذیابیطس اینڈ اینڈو کرائنولوجی کی ڈاکٹر زرین کرن، ڈاکٹر فرید الدین ندا جاوید شامل تھے۔ اس موقع پر ایک آگاہی واک کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں شرکاءنے پلے کارڈز اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر موٹاپے کی وجوہات اور اس سے بچا¶ کے حوالے سے آگاہی پیغامات درج تھے۔ اس کے علاوہ عوام الناس، یونیورسٹی کے فیکلٹی اور اسٹاف کے اہل خانہ کے لیے ایک فری میڈیکل کیمپ کا بھی اہتمام کیا تھا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاﺅ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے کہا کہ موٹاپا صحت عامہ کا ایک بڑھتا ہوا چیلنج ہے جو بچوں اور بڑوں دونوں کو متاثر کررہا ہے۔ بچپن کا موٹاپا ایک سنگین تشویش ناک بات ہے، جسمانی سرگرمی کی کمی اور غیر صحت بخش غذائی عادات بچپن کے موٹاپے میں بڑے معاون ہیں۔پروفیسر کاشف نے موٹاپے کی وبائی امراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 2016 میں تقریباً 2 بلین افراد کے وزن زیادہ ہونے کا انکشاف ہوا جس میں سے 650 ملین سے زیادہ موٹے تھے۔ دنیا کی زیادہ تر آبادی ایسے ممالک میں رہتی ہے جہاں لوگ زیادہ وزن اور موٹاپا کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ بچوں میں موٹاپے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2020 میں 5 سال سے کم عمر کے 39 ملین بچوں کا وزن زیادہ تھا جس کی وجہ سے وہ چھوٹی عمر میں ہی ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسی موٹاپے کی پیچیدگیوں کا شکار ہو ئے۔ پاکستان کے 16 اضلاع میں کیے گئے پاکستان پینل ہاؤس ہولڈ سروے کے اعدادوشمار کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر 22.8% شرکاء(23.9% خواتین اور 21.1% مرد) کا وزن زیادہ تھا، اور 5.1% (6.3%)۔ % خواتین اور 3.2% مرد) موٹے تھے۔
 جسمانی غیرفعالیت، پھلوں اور سبزیوں کے استعمال میں کمی، گوشت کا زیادہ استعمال اور طرز زندگی میں بے احتیاتی کے نتیجے میں موٹاپا ہوتا ہے۔ قومی ادارہ برائے ذیابطیس کے ڈاکٹر فرید الدین اور ڈاکٹر زرین کرن نے کہا کہ موٹاپا پوری دنیا میں صحت کے حوالے سے سب سے زیادہ مسائل میں سے ایک ہے۔ موٹاپا ایک پیچیدہ ملٹی فیکٹوریل بیماری ہے جس میں جسم میں اضافی چربی جمع ہونے سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ملک بھر میں موٹاپا تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ایک بے مثال وبا پھیلتی ہے جو جلد ہی کسی بھی وقت سست ہونے کی کوئی خاص علامت نہیں دکھاتی ہے۔ بڑھتا ہوا باڈی ماس انڈیکس (BMI) غیر متعدی امراض جیسے ذیابیطس، قلبی امراض، اور عضلاتی عوارض کے لئے ایک خطرے کا عنصر ہے، جس کے نتیجے میں زندگی کے معیار اور توقعات میں ڈرامائی کمی واقع ہوتی ہے۔ موٹاپے کی بنیادی وجہ استعمال شدہ کیلوریز اور خرچ شدہ کیلوریز کے درمیان طویل مدتی توانائی کا عدم توازن ہے۔اسکول آف پبلک ہیلتھ کی ندا جاوید نے صحت مند طرز زندگی کے طرز عمل کو اپنانے پر زور دیا جس میں مناسب خوراک اور جسمانی سرگرمیاں موٹاپے کے انتظام میں کامیاب مداخلت کے طور پر شامل ہیں۔ تاہم یہ طرز عمل بہت سے عوامل سے متاثر ہوتے ہیں۔ لہٰذا مداخلتوں کے تعاون میں ایک مجموعی نقطہ نظر کے طور پر صرف ایک عنصر پر غور کرنے سے زیادہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ موٹاپے کی وبا کو کم کرنے کے لیے وزن کے انتظام میں م¶ثر طریقے سے مدد کرنے کے لئے رجسٹرڈ غذائی ماہرین/غذائیت کے ماہرین سمیت ایک کثیر الضابطہ ٹیم کا موجود ہونا ضروری ہے۔
 یہ بھی پڑھیں۔5سال کیلئے مائنس تحریک انصاف قومی حکومت تشکیل دی جائے۔شہباز شریف

مزیدخبریں