قصیدہِ مریم شریف، ’یہ جو دس کروڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں‘

Mar 16, 2024 | 14:53:PM

Amir Raza Khan

سٹی فورٹی ٹو کا مارننگ شو سٹی @ 10 چل رہا تھا میزبان انا یوسف نے اچانک سوال کیا کہ کہ مریم نواز بہت کام کررہی ہیں اب ائیر ایمبولینس کیلئے دو جہاز اور ایک ہیلی کاپٹر خریدنے کی منظوری دی ہے انہیں شاید یہ توقع تھی کہ میں اس اقدام پر ’قصیدہِ مریم شریف‘ پڑھوں گا میں نے کہا کہ اقدام تو بہت اچھا ہے لیکن کاش جہاز اور ہیلی ایمبولینس کے بجائے زمین پر چلنے والی سرکاری ایمبولینسز کی تعداد میں اضافہ کیا جاتا، کاش یہ پیسہ ہماری ہائی ویز پر سرکاری ٹراما سینٹرز بنانے پر خرچ کیا جاتا،  تحصیل اور ضلعی ہیڈکوارٹرز پر ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن کرادی جاتی، وہاں ڈاکٹرز مہیا کیے جاتے، مریضوں کو انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی اور معمولی ٹیسٹ کیلئے بھی دور دراز نا جانا پڑتا، کاش ہم فضا میں اڑنے کے بجائے زمین پر رینگتی زندگیوں کو بچانے کی کوشش کرتے، کاش ہمارے حکمران بیوروکریسی کے تیار شدہ سبز باغوں سے آگے کی سوچ سکیں۔

یہ بھی پڑھیے: ’’مریم نواز! شوباز کے بعد پیش ہے ڈرامے باز‘‘

انا یوسف نے میری بات کو کاؤنٹر کرتے ہوئے فوراً لقمہ دیا کہ کیا پھر آپ اس اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں یہ ایک اچھا کام ہے، میں نے کہا بلا شبہ اچھا کام ہے لیکن دو جہازوں اور ایک ہیلی کاپٹر کب استعمال ہوں گے جب اللہ نا کرے آسمانی آفات زلزلے یا سیلاب آئیں گے لیکن ہماری سڑکوں پر، دیہات اور دور دراز علاقوں میں سینکڑوں زندگیاں ہر سال فوری طبی امداد نا ملنے کے سبب جان جانِ آفریں کے سپرد کررہی ہیں، ہمیں انہین بچانے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ ائیر ایمبولینس کا میکنزم بنتے بنتے اور کسے کہاں ضرورت ہے کا تعین کرتے کرتے وقت لگے گا ایسا تو نہیں ہے کہ پنجاب بھر سے آنے والی ہر درخواست پر جہاز بجھوا دیا جائے گا اور ہیلی کاپٹر ہر قصبے میں اتار دیا جائے گا، ہمیں ٹراما سینٹرز پر غور کرنا چاہیئے یہ کام آسان بھی ہے اور فائدہ مند بھی جہاں سے سرکاری ایمبولینس کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے، کیا آپ سب کو اندازہ ہے کہ پرائیویٹ ایمبولینس مافیا کس طرح مریضوں کے لواحقین کو لوٹتا ہے مریض مر رہا ہوتا ہے اور بھاؤ تاؤ کیا جارہا ہوتا ہے اور جب مریض نا بچ پائے تو اس کے جسد خاکی کو ہسپتال سے واپس گھر پہنچانے کیلئے کس قدر اذیت ناک طریقے سے لوٹ مار کا بازار گرم کیا جاتا ہے، اندازہ ہے کسی کو کہ لاہور جیسے شہر میں چلنے والی کسی پرائیویٹ یا فلاحی ادارے کی ایمبولینس میں آکسیجن ہی موجود نہیں یہ لاہور کی بات کر رہا ہوں چھوٹے شہروں قصبوں میں کون سی ایمبولینس اور کون سی ابتدائی طبی امداد؟

یہ بھی پڑھیے: محسن نقوی  یا  بزدار ،سب کچھ مریم  بی بی کے ہاتھ 

بات وہی بہتر ہوتی ہے جو زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر کی جائے اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے شہروں میں بھی طبی سہولیات اپ ٹو دی سٹینڈر نہیں ہیں تو چھوٹے شہروں اور قصبوں کی کیا صورتحال ہوگی لیکن ہماری بیوروکریسی کا وطیرہ کبھی تبدیل نہیں ہوگا وہ ہر حکمران کو ایسا سبز باغ دکھائیں گے کہ تخت پر بیٹھے فرد کو لگے گا کہ صرف اس کے یہ افسر شاہی کے نمائندے ہی اُس کے حقیقی ہمدرد اور اسے عوام میں مقبول بنانے والے ہیں۔ حبیب جالب کی نظم یاد آگئی جو انہوں نے ایسے ہی مشیران اور افسران کیلئے لکھی تھی جس کے چند اشعار کچھ یوں ہیں:

میں نے اس سے یہ کہا

یہ جو دس کروڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں

ان کی فکر سو گئی 

ہر امید کی کرن 

ظلمتوں میں کھو گئی 

 چین ہے سماج میں 

بے مثال فرق ہے 

کل میں اور آج میں 

اپنے خرچ پر ہیں قید 

لوگ تیرے راج میں 

ہر وزیر ہر سفیر 

بے نظیر ہے مشیر 

واہ کیا جواب ہے 

تیرے ذہن کی قسم 

خوب انتخاب ہے 

جاگتی ہے افسری 

قوم محو خواب ہے ۔۔۔۔

جی دلچسپ بات ہے کہ ہر حکمران اسے ہی سچ مان لیتا ہے کہ اس کے افسران جاگ رہے ہیں اور عوام بے شعور سو رہی ہے، ذرا غور تو کریں کہ یہ بیوروکریسی اس وقت مریم نواز کو عوام میں جانے سے روک رہی ہے، سارا زور اجلاس اور میٹنگز پر ہے جو ایک روٹین کا کام ہے، انگلش میں لکھے چند صفحات جن پر تاریخ اور نام بدلنا ہوتا ہے بغل میں دابے میٹنگ میں پہنچے اپنی باری پر ملٹی میڈیا پر پریزنٹیشن دی اور یہ جا وہ جا، انہیں عوام سے زیادہ اپنی نئی گاڑیوں، خانساموں، مالیوں اور ڈرائیوروں سے مفت کام لینے کی فکر ہوتی ہے اور اب تو چاپلوسی کی ہر حد کو چھونا ہر کوئی بڑے اعزاز کی بات سمجھتا ہے۔

 یہ بھی پڑھیے: محسن پنجاب نامنظور ،مگر کیوں ؟

پہلے یہ حکمرانوں کی تعریف کیا کرتے تھے اب یہ ’قصیدہ مریم شریف‘ پڑھ رہے ہیں جھوم جھوم کر بتا رہے ہیں کہ ایک لال لائن سڑک پر لگائیں تو تجاوزات ختم ہوجائیں گی اور آٹے کے تھیلے پر والد کی تصویر لگانے سے امریکا اور روس کے سائنسدانوں کو بھی پیچھے چھوڑا جاسکتا ہے، یہ کبھی کسی حکمران کو اصل مسائل اور اُن کے حل کی جانب نہیں آنے دیں گے کہ ایسا کرنے سے عوام خوشحال ہوگی اور افسر شاہی کی دیہاڑی بھی نہیں بنے گی۔

مریم نواز! فیصلہ آپ کے ہاتھ ہے آپ اس بیوروکریسی کے ہاتھ میں کھیلتی ہیں یا عوام کی نبض پہ ہاتھ رکھتی ہیں، جاتے جاتے بتادوں کہ آٹے اور تجاوزات پر ابھی مجھے لکھنا ہے۔

مزیدخبریں