دبئی پراپرٹی لیکس کا پہلا اوور،20اوور باقی،کون سے پردہ نشیں باقی ہیں؟

May 16, 2024 | 10:00:AM

Read more!

(24 نیوز)ایک ارب ڈالر قرض کے واسطے آئی ایم ایف کی چوکھٹ پہ ناک رگڑتے،دوست ممالک کے سامنے قرض کے لئے کشکول پھیلاتے اور عالمی اداروں سے ملکی معیشت کی خاطر امداد کی بھیک مانگتے کنگال ملک کے بائیس ہزار لوگوں کا دبئی جیسی مہنگی جگہ پر ساڑھے بارہ ارب ڈالر کے ساتھ تئیس ہزار پراپرٹیز کا بڑا جال بے نقاب ہوا ہے جسے د بئی ان لاک یا دبئی لیکس کہا جارہا ہے، آرگنا ئزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ کے بینر تلے اٹھاون ممالک کے چوہتر پارٹنر اداروں نے دنیا بھر سے ہزاروں افراد کی دبئی کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کا انکشاف کیا ہے۔ دبئی ان لاکڈ کی تفصیلات کے مطابق دنیا بھر کے چوٹی کے امیر افراد کی دبئی میں اربوں ڈالرز کی جائیدادیں موجود ہیں۔ دبئی میں غیر ملکیوں کی 389 ارب ڈالر کی جائیدادیں ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ان جائیدادوں کے مالکان میں سرفہرست روس کے طاقتور افراد بتائے گئے ہیں۔ دبئی میں غیر ملکیوں کی جائیدادوں میں بھارت پہلے نمبر پر ہے جس کے 29 ہزار 700 مالکان کی 35 ہزار جائیدادیں ہیں دو ہزار بائیس کے اعداد وشمار کے مطابق دبئی میں بھارتیوں کی جائیدادوں کی مالیت 17 ارب ڈالر ہے۔
پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق کہتے ہیں کہ دبئی میں رہائشی جائیداد کی خرید و فروخت میں عالمی سطح پر پاکستان کا دوسرا نمبر ہے اور پاکستانی شہریت والے 17 ہزار مالکان کی دبئی میں 23 ہزار جائیدادیں ہیں۔ ساڑھے 19 ہزار برطانوی شہریوں کی دبئی میں 22 ہزار جائیدادیں ہیں جن کی مالیت 10 ارب ڈالر ہے، جبکہ ساڑھے 8 ہزار سعودی شہری دبئی میں 16 ہزار جائیدادوں کے مالک ہیں جن کی مالیت ساڑھے 8 ارب ڈالر ہیں رپورٹ میں یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے ،کہ عالمی سرمایہ کاری کی فہرست میں دبئی میں رہائشی جائیداد کی خرید و فروخت میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔ سیاست دانوں، میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد، بڑی کاروباری شخصیات اور ملٹری افسران کے نام بھی دبئی لیکس میں شامل ہیں۔ ڈیٹا لیک میں پاکستانیوں کو دبئی کے مہنگے ترین علاقوں میں بطور پراپرٹی مالکان ظاہر کیا گیا جن میں دبئی مرینا، ایمریٹس ہلز، بزنس بے، پام جمیرہ اور البرشہ شامل ہیں۔ جبکہ اس رپورٹ میں خاص بات اور حیران کن امر یہ ہے کہ ڈیٹا لیکس میں کسی مالیاتی جرائم کے پیسوں سے خریدی گئی جائیدادوں کا ثبوت نہیں اور نہ ہی آمدنی کے ذرائع، رینٹ کی مد میں ٹیکس ڈیکلیریشن جیسی معلومات شامل ہیں ،اور یہی وہ پہلو ہے جس پر آج کے پروگرام میں آگے چل کر تفصیل سے بات کریں گے ۔ دبئی لیکس میں جن قابل ذکر پاکستانیوں کے نام شامل ہیں ان میں صدر آصف زرداری کے تینوں بچوں ،سابق صدر مرحوم پرویز مشرف ،سابق وزیر اعظم شوکت عزیز ،حسین نواز شریف ،وزیر داخلہ محسن نقوی کی اہلیہ وزیر ،اطلاعات سندھ شرجیل میمن ،اور اہلیہ سینیٹر فیصل واڈا،پی ٹی آئی کے شیر افضل مروت ،فرحت شہزادی عرف فرح گوگی ،سندھ کے 4 ارکان قومی اسمبلی سندھ اور بلوچستان اسمبلی کے 6 سے زائد ارکان ریٹائرڈ سرکاری افسران، پولیس چیف، سفارت کار، سائنسدان کا نام بھی شامل ہے۔ دبئی لیکس میں نام آنے کے بعد سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کی جانب سے اس پہ ردعمل سامنے آنے کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ سب سے پہلے سینٹر فیصل واوڈا کی جانب سے یہ خبر بریک کی گئی تھی کہ دبئی لیکس آرہی ہیں اور اس پر اپنے ردعمل میں ان کا کیا کہنا تھا زرا اسکی جھلک آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔
لیگی رہنما اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا اس معاملے پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ردعمل میں کہنا تھا کہ یہ بڑی خبر ڈبہ فلم پہلے بھی چلی ھوئ ھے۔ وہی کہانی وہی کردار وہی نام نئی بات کیا ھے. لگتا ھے یہ دو نمبر فلم صرف اصل واردتیوں سے توجہ ھٹانے کا منصوبہ ھے۔ اور اسکی فنڈنگ بھی وہی واردتیے کررہے ھیں۔ کام جیسے جیسے قریب آرہا ھے اس قسم کی بڑی خبریں سامنے آئیں گی۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا دبئی لیکس پر ردعمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اہلیہ کے نام دبئی میں خریدی جائیداد باقاعدہ ڈیکلیئرڈ ہے، دئبی میں جائیداد اہلیہ نے2017 میں خریدی۔ پراپرٹی لیکس سے متعلق وضاحتی بیان میں محسن نقوی نے کہا کہ جائیداد کو جمع کرائے گئے ٹیکس گوشواروں میں بھی ظاہر کیا،ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے جمع کرائے گوشواروں میں بھی اس جائیداد کو ڈیکلیئر کیا۔
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ ایک برس قبل جائیداد کو فروخت کر دیا تھا فروخت کردہ جائیداد کی رقم سے چند ہفتے قبل ایک اور پراپرٹی خریدی ہے ۔بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے دبئی پراپرٹی لیکس میں نام آنے پر وضاحت جاری کی گئی ہے، بلاول بھٹو کے ترجمان ذوالفقار علی بدر کا کہنا ہے کہ بلاول اور آصفہ بھٹو کے تمام اثاثے ڈیکلیئرڈ ہیں۔دبئی پراپرٹی لیکس کے حوالے سے موجودہ خبر میں کچھ نیا نہیں، نہ ہی کچھ غیرقانونی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے اپنے ردعمل میں کہا کہ وہ دبئی میں اپارٹمنٹ کے مالک ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ دبئی میں پراپرٹی فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)اور الیکشن کمیشن میں 6 سال سے ڈکلیئر ہے۔ حکومتی سائیڈ سے دبئی لیکس کو کس انداز میں لیا جارہا ہے ذرا اسکی ایک جھلک آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔
دوسری جانب تحریک انصاف اور اپوزیشن میں شامل جماعتوں کی جانب سے اسے سیاسی بیانئے کے طور پر بھرپور استعمال کیا جارہا ہے ۔دبئی لیکس میں ہائی پروفائل شخصیات کے نام سامنے آنے کے بعد سوالات تو بہت سارے ہیں مگر سادہ سوال یہ ہے کہ بیرون ملک جائیداد کا مالک ہونا بذات خود کوئی جرم نہیں، اور نہ ہی پاکستان سے باہر جائیداد کا مالک ہونا غیر قانونی سرگرمی ہے ،تو پھر دبئی لیکس میں ایسا کیا ہے جسے تہلکہ کہا جاسکے بیرون ملک کام کرنے والے بہت سے افراد کے پاس جائیدادیں ہیں اور ان لوگوں نے جائیدادیں آمدن پر ٹیکس ادا کر کے خریدی ہیں تو پھر اس میں غیر قانونی کیا ہے،سوال تو یہ بھی ہے کہ اس ڈیٹا لیکس میں شامل افراد سے متعلق ان کے ناموں اور پراپرٹیز کے علاوہ انکی دبئی میں رہایش یا اقامہ سے متعلق کوئی تفصیل موجود نہیں اور رپورٹ مرتب کرنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ اس متعلق متحدہ عرب امارات کے اعلی حکام کی جانب سے انھیں کوئی تعاون فراہم نہیں کیا گیا تو پھر ان پراپرٹیز پر ٹیکس کا تعین کون اور کیسے کرے گا البتہ چئیرمین ایف بی آر ڈاکٹر امجد ٹوانہ کا موقف ضرور شامل کیا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ اگر ان افراد کا مکمل ڈیٹا جس میں دبئی میں انکی رہایش اور اقامہ جیسی تفصیلات موجود ہوں تو ہی بتایا جاسکتا ہے کہ کس پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے اور کس پر نہیں اس متعلق ٹیکس قوانین میں کچھ تبدیلیاں لانا ناگزیر ہے اس متعلق سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) شبر زیدی نے دبئی پراپرٹی لیکس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاستدان یہ بتائیں کہ جن پیسوں سے جائیدادیں خریدیں وہ پیسہ کہاں سے کمایا؟ سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ دبئی حکام سے کہا تھا جن پاکستانیوں کے پاس اقامے ہیں ان کی فہرست دیں، میرے لسٹ مانگنے پر دبئی حکام شکایت لے کر عمران خان کے پاس پہنچ گئے۔ شبر زیدی نے بتایا کہ عمران خان نے کہا کل ہم ان سے ایک ارب ڈالر لے کر آئے ہیں ،ان سے پنگا نہ لو انھوں نے مزید کہا کہ دبئی لیکس پہلا اوور ہے ابھی بیس اوورز آنا باقی ہیں۔

مزیدخبریں