(احتشام کیانی) اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جج جسٹس محسن اختر کیانی کا کہناہے کہ جبری گمشدگی پر سزائے موت ہونی چاہیے جب کوئی اور اغواء کر کے پانچ روپے بھی مانگ لے تو اسکے لیے سزائے موت ہےتو پھر جبری گمشدگی پر کیوں نہیں ۔
تفصیلا ت کے مطابق شاعر فرہاد بازیابی کیس میں پولیس کیجانب سے عدالتی حکم کے باوجود مغوی کو بازیاب نہ کروانے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ سسٹم ایسا بنا ہوا ہے کہ سارے لوگ اغواء کاروں کا ہی تحفظ کرتے ہیں، سماعت کے آغاز پر جسٹس محسن اختر کیانی نے سوا ل کیاکہ کیا صورتحال ہے؟ وکیل اسلام آباد پولیس نے جواب دیا کہ ہم نے سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم بنائی ہے، ایس ایس پی آپریشنز نے کہا کہ میں نے احمد فرہاد کی اہلیہ سے خود بات کی ہے، احمد فرہاد کو گھر کے اندر سے نہیں بلکہ باہر سے اٹھایا گیا، جس گاڑی سے متعلق بتایا گیا ہم نے اس متعلق بھی تفتیش کی ہے، احمد فرہاد کی اہلیہ نے ڈبل کیبن گاڑی گا بتایا تھا، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ گاڑیاں ڈالے والی ہی ہیں؟
ایس ایس پی آپریشنز پھر گویاں ہوئے کہ ہم نے احمد فرہاد کے موبائل فون کی کالز کا ریکارڈ بھی لیا ہے، جیو فینسگ کر لی ہے وہ تھوڑا وقت لیتی ہے، موقع پر موجود لوگوں سے بھی ہم نے تفتیش کی ہے، وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ عدالت پوچھے کہ کیا دیگر ایجنسیز سے بھی آفیشلی پوچھا گیا ہے؟ ایس ایس پی آپریشنز نے جواب دیا کہ ہم نے پوچھا تو ہے لیکن آفیشلی خطوط نہیں لکھے گئے، جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کیا کبھی مثبت جواب بھی آیا ہے کہ بندہ ہم نے اٹھایا ہے؟ ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر نے کہا کہ نہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا۔
جسٹس محسن کیانی پھر بولے کہ جب وہ اٹھا کر لے جاتے ہیں تو سب سے پہلے پاسورڈ لیتے ہیں اور سم بند کر دیتے ہیں، پھر اب وقت آ گیا ہے کہ سیکرٹری دفاع اور آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر کو بلا لیں، میں نے کہا تھا کہ جہاں پولیس کی تفتیش رک جائے گی پھر انہیں بلائیں گے، یا تو آپ کہیں کہ راء کے لوگ اٹھا کر لے گئے یا تاوان کیلئے اغواء کیا گیا ہے، وکیل پولیس نے کہا کہ ہمارے لیے آسان ہے کہ مسنگ پرسن میں ڈال کر اپنی جان چھڑا لیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ درخواست گزار کا الزام پولیس پر کیوں نہیں ہے؟ اور پھر خود ہی کہا کہ یہ زبردست بات ہے کہ پولیس پر تو اعتماد ہے ان پر الزام نہیں لگایا جاتا، پولیس سے گلہ ہے کہ انکی انویسٹی گیشن ایک حد سے آگے جاتی ہی نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید کہا کہ نامعلوم افراد کی یہ صلاحیت تو ہے نا کہ 24گھنٹے میں لوگ آ کر کہتے ہیں ہم شمالی علاقوں میں گئے تھے، لاپتہ افراد پر بات کرنے کی وجہ سے وہ مسنگ ہے، باعث شرم بات ہے کہ پورے پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو پتہ ہے کہ ہو کیا رہا ہے، جو اٹھایا جاتا ہے جب مہینوں بعد آتا ہے تو فیملی والے کہتے ہیں اور کچھ نہ کہنا، یہ سسٹم ایسا بنا ہوا ہے کہ سارے لوگ اغواء کاروں کا ہی تحفظ کرتے ہیں، میرا تو یہ ماننا ہے کہ ان اغواء کاروں کی سزا سزائے موت ہونی چاہیے، کوئی اور اغواء کر کے پانچ روپے بھی مانگ لے تو اسکے لیے سزائے موت ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس میں مزید کہا کہ ادارے اور ہر آدمی جواب دہ ہے، امید ہے آئندہ لاپتہ افراد سے متعلق بھی کوئی قانون بنے گا، قانون بنے گا اور اداروں کے اہلکاروں کے خلاف بھی مقدمات درج ہونگے، کیا امید ہے کہ پارلیمنٹ ایسا کچھ کرے گی؟ وزارت اطلاعات کہاں ہے؟ ایک صحافی کو اٹھا کر لے گئے اور انہیں پتہ ہی نہیں ہے، اگر حکومت ایسے کام کرے گی تو پھر کام کیسے چلے گا، میں سیکرٹری دفاع اور سیکٹر کمانڈر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رہا ہوں، جن پر الزام ہے میں ان کو بلا رہا ہوں، اگر پھر بھی کام نہیں ہو گا تو پھر میں وزیراعظم کو بھء میں بلاؤں گا، کیا قانون سے ماورا ہیں؟ میرے سمیت سب لوگ جوابدہ ہیں۔
جسٹس محسن کیانی نے وکیل پولیس سے مکالمہ کرتے ہوئے کا کہ وردیوں اور بغیر وردیوں والے اغواء کیے گئے بندے کو ڈھونڈ کر لائیں گے، اگر نہیں لائیں گے تو انکو اپنے دفاتر سے نکال دیا جائے گا، ایک وی لاگ میں بات بری لگ جائے تو بندہ اٹھا کر لے جاتے ہیں، دونوں کام نہیں ہو سکتے کہ غلط کام بھی کریں اور امیج بلڈنگ بھی کریں، اگر سیکرٹری دفاع نے کچھ نہ کیا تو سیکرٹری داخلہ کو بلاؤں گا، پھر وزیراعظم کو طلب کروں گا، ابھی سے بتا رہا ہوں، سیکرٹری دفاع عدالت میں رپورٹ جمع کروائیں،
تمام خفیہ اداروں کے سیکٹر کمانڈرز سے معلومات لے کر رپورٹ جمع کروائیں، وزارتِ دفاع کا افسر آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہو، عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔