پنجاب کے دل میں سوراخ

تحریر: میر خرم خان گورچانی

May 16, 2024 | 20:37:PM

(24نیوز) گزشتہ دنوں چار روز کیلئے شام کی شفٹ میں ڈیوٹی لگ گئی تھی،شام کی شفٹ میں ڈیوٹی کے اوقات شام ساڑھے چار سے رات ایک بجے تک ہوتے ہیں، ایک رات ڈیوٹی ختم کر کے دفتر سے نکلا ہی تھا کہ ایک عزیز کی کال آ گئی کہ کہاں ہو؟ میں نے بتایا کہ دفتر سے نکل رہا ہوں،اس پر اُنہوں نے گھبراہٹ بھری آواز میں کہا مجھے ہسپتال جانا ہے میری طبعیت ٹھیک نہیں، میں نے بغیر کچھ سوچے اُن سے کہا کہ آپ مجھے لوکیشن بھیجیں میں آ رہا ہوں۔

اُن کے نئے گھر کا پتہ معلوم نہیں تھا اس لیے لوکیشن کی درخواست کی، راستے میں گوگل میپ پر ان کے گھر کی لوکیشن لگائی اور10منٹ میں اُن کے پاس پہنچ گیا، واضح رہے کہ اُن عزیز سے میرا کافی احترام کا رشتہ ہے زندگی کے کئی نشیب و فراز اُن سے سیکھے ہیں، جب وہ گھر سے باہر آئے تو دیکھا پورے کپڑے بھیگے ہوئے اور شدید گھبراہٹ کی شکایت تھی انہیں، گاڑی میں بیٹھتے ہی کہا کہ پی آئی سی یعنی پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیولوجی چلو، میں گاڑی دوڑاتا ہوا اور انہیں راستے بھر تسلیاں دیتا ہوا پی آئی سی کی جانب چل پڑا، پی آئی سی پہنچے تو اصل امتحان شروع ہوا، ایمرجنسی گیٹ سے داخل ہوتے ہی گاڑی پارک کی اور تیزی سے اندر کی جانب بڑھے تو عمارت کی تزئین و آرائش دیدنی تھی، علم ہوا کہ پی آئی سی کو نگراں دور میں وزیراعلیٰ محسن نقوی صاحب نے خصوصی توجہ دیتے ہوئےوسیع کروایا ہے 

 میں ابھی عمارت کے سحر میں ہی مبتلا تھا کہ ایمرجنسی کاؤنٹر آ گیا، وہاں سے ڈاکٹر کو دکھانے کیلئے رسید حاصل کی، اتنے میں ایک سیکیورٹی گارڈ دوڑتا ہوا ہماری جانب آیا کہ سر یہاں بٹھا دیں مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ سرکاری اسپتال میں اتنی آؤ بھگت ہو رہی ہے،ڈاکٹر کو دکھایا تو انہوں نے فوری کھانے کیلئے چند گولیاں دیں اور کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیئے۔ سامنے ہی بیٹھی ہوئی نرس نے خون کا نمونہ ہاتھ میں دے کر کہا واپس کاؤنٹر پر جائیں اور نمبر لگوا لیں، میں خون کا نمونہ اور  رسید لے کر میں واپس ایمرجنسی کاؤنٹر پر گیا جہاں اندراج کے دوران ڈیٹا انٹری آپریٹر سے دریافت کیا کہ کتنا وقت لگے گا ٹیسٹ کا نتیجہ آنے میں تو ڈیٹا انٹری آپریٹر صاحبہ نے کہا ڈھائی سے تین گھنٹے تو کم از کم لگیں گے، وہیں کھڑی ہوئی 2خواتین نرس میری جانب آئیں اور کہا سر یہ رسید آپ مجھے دیں میں آپ کا جلدی ٹیسٹ کروا دیتی ہوں، میں نے وہ رسید اور خون کا نمونہ خود جا کر لیبارٹری میں جمع کروانے کے بجائے اُن کے ہاتھ میں دے دیا، وہ خواتین خون کے نمونے جمع کروا کر جب واپس آ رہی تھیں تو مجھے کہا کہ سر ایک گھنٹے میں رپورٹ مل جائے گی بس آپ نے ہمارا خیال رکھنا ہے، اب خیال رکھنے کا واضح مطلب تھا کہ خرچہ پانی دینا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : امریکا کے سابق صدر ’جمی کارٹر ‘کی حالت تشویشناک

پی آئی سی داخل ہونے کے بعد عمارت اور آؤ بھگت کا سحر جیسے بکھر سا گیا ہو، مگر ساتھ ہی مسکرا دیا ، آگے بڑھا تو ایک نوجوان کاؤنٹر سے نکل کر میری طرف آیا کہ سر لائیں میں آپ کی فائل بنا دو،مجھے سے کاغذ لیے اور ایک فائل میں انہیں اسٹیپلر کر کے فائل مجھے واپس کردی، میرے ہاتھ میں اب کاغذات کے بجائے فائل آ گئی تھی،واپس جب اپنے عزیز کے پاس پہنچا تو ان کے پاس وہی سیکیورٹی گارڈ کھڑا تھا جس نے شروع میں ہی آؤ بھگت کی تھی اور ہمارے عزیز سے گفتگو میں مصروف تھا، اتنے میں ڈاکٹر نے کہا ای سی جی وغیرہ ٹھیک ہے، اگر آپ انتظار کر سکتے ہیں رپورٹس کا تو کر لیں ویسے طبعیت ٹھیک ہے، شاید ابتدا میں جو گولیاں دی گئیں انہوں نے بروقت اثر کیا، میں نے اپنے عزیز سے کہا کیا کہتے ہیں رپورٹ کا انتظار کریں یا چلیں تو انہوں نے کہہ دیا چلو چلتے ہیں، ابھی امیں ان کو بتانے ہی لگا کہ نرسز نے مجھ سے اس طرح خرچہ پانی مانگا کہ سیکیورٹی گارڈ بول پڑا کہ سر خرچہ پانی تو دے دیں، میرے عزیز نے جیب میں ہاتھ ڈال کر جو ہاتھ آیا دے دیا،وہ گارڈ بڑا خوش ہونے لگا،اور ہم سے نمبر لے کر کہا کہ میں آپ کو ٹیسٹ کی رپورٹ واٹس ایپ کر دوں گا اور میرا نمبر بھی سیو کر لیا۔

ہم مزید آگے بڑھے تو جس لڑکے نے فائل بنا کر دی تو وہ آ گیا کہ سر چائے پانی دے دیں، میں نے اس کے الفاظ سن کر اُسے گھورا تو وہ واپس چلا گیا میں نے اپنے عزیز سے کہا کہ یہ ہو کیا رہا ہے یہاں تو ڈاکٹرز کے علاوہ ہر بندہ ہی خرچہ پانی مانگنے کھڑا ہوا ہے،پھر انہیں نرسوں کے پیسے مانگنے والی بات بھی بتائی کہ یہ بھی ہوا ہے،ہم دونوں کو ایک خود سے مانگنے والوں پر بڑا غصہ آتا ہے کیوں کہ ایسے لوگوں نے مانگنا ہی اپنا پیشہ بنایا ہوتا ہے،خیر ہم واپس گاڑی میں بیٹھنے لگے تو گاڑی کے پاس ایک اور گارڈ دوڑتا ہوا آیا اس سے پہلے کہ اُس کے منہ سے بھی خرچہ پانی سنتے ہم گاڑی میں ہی بیٹھ گئے، یہ وہ تجربہ تھا جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ بحیثیت قوم ہم پاکستانی کرپٹ لوگ ہیں، پی آئی سی چونکہ دل کے امراض کا ہسپتال ہے یہ یہاں آنے والے ہزاروں کی تعداد میں زیادہ تر لوگ ایمرجنسی میں ہی آتے ہیں اور ایمرجنسی میں آئے ہوئے افراد سے اس طرح رقم بٹورنا کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ،اسے خرچہ پانی نہیں سیدھا سیدھا رشوت یا بھتہ خوری کہیں گے، افسوس کہ اپنی آنکھوں کے سامنے ہر روز اموات دیکھنے کے باوجود ان لوگوں کی عقلیں نہیں کھل سکیں۔
نگراں حکومت نے اپنی مدت کے دوران جو کچھ ہو سکا وہ کر لیا، اب پنجاب کی موجودہ حکومت کو ایسے اداروں پر توجہ دینی پڑے گی ورنہ پھر پنجاب میں دل کے امراض کا یہ ادارہ تباہی کی طرف گامزن ہو جائے گا، ملازمین کو بھی دوسروں کی جیبوں پر نظر کے بجائے کام کرنا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں : امریکی صدرجوبائیڈن مقروض نکلے ذاتی گھر بھی رہن رکھوا چکے ، اثاثوں کی تفصیلات جاری

مزیدخبریں