(اویس کیانی) قائد پاکستان مسلم لیگ ن اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ہمارے دور کی پالیسیاں جاری رہتیں تو آج پاکستان ترقی کی رفتار میں کہیں آگے ہوتا۔
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے نوازشریف کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کی معاشی مشکلات کو سمجھتے ہیں، عوام کو مہنگائی، غربت سے نجات دلانا ہماری ذمہ داری اور فرض ہے، ہمیشہ تاجروں سے مشاورت کی اور اب بھی مشاورت سے ہی آگے بڑھیں گے، ہماری بنائی پالیسیوں پر پاکستان کی کاروباری برادری نے بھرپور عمل کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری بنائی پالیسیوں کو بھارت نے اپنایا اور معاشی ترقی حاصل کی، 1990ء کے بعد سے ہم نے کاروبار کو روایتی دائروں سے آزادی دلائی، دیگر ممالک بھی ان مراحل سے گزرے ہیں، ہم نے پالیسیاں بنائیں تو خزانہ بھرنا شروع ہوگیا۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انڈسٹری میں آنے والے پیسے کے بارے میں نہ پوچھنے کی پالیسی ہونی چاہیئے، 1990ء کے دور کی ہماری پالیسیاں اور ترقی کی رفتار جاری رہتی تو آج پاکستان ترقی کی رفتار میں کہیں آگے ہوتا، اگر لوگ ترقی مانگتے ہیں، تعلیم اور صحت مانگتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے اور یہ سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ 2022ء میں حکومت میں آنے کیلئے تیار نہیں تھے لیکن پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانا ضروری تھا، شہباز شریف کے مستعفی ہونے کی تقریر تیار تھی، میں نے تقریر دیکھ لی تھی، ہم ملک کو ترقی دیتے ہیں پھر جلا وطنی اور قید بھی کاٹتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: نگراں وزیرِ اعظم و وزراء کے کتنے اثاثے؟ تفصیلات سامنے آ گئیں
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے خود اپنی پارلیمنٹ اور وزرائے اعظم کے ساتھ زیادتیاں کیں، پھر ملک کس کے حوالے کر دیا گیا، روپیہ، معیشت اور سب نظام تباہی کا شکار ہوگیا، ہمارے دور میں 1000 روپے جس کا بل آتا تھا، آج 15 ہزار بل آ رہا ہے، پانچ پانچ گنا قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ 2013ء سے 2017ء کے دوران پاکستان دنیا کی چوبیسویں معیشت بن چکا تھا، ہم نے چار سال ڈالر کو 104 روپے پر باندھ کر رکھا، ہمارے دور کی ترقی اور پالیسی جاری رہتی تو ڈالر آج چالیس یا پچاس روپے کا ہوتا، 1998ء میں ایٹمی دھماکے کئے تھے تو اسلامی ممالک پاکستان کو اپنا رکھوالا سمجھنے لگے تھے۔
نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ آج یہ حالت ہوگئی کہ ایک ایک ارب ڈالر کیلئے محتاج ہوگئے ہیں، یہ کلہاڑی ہم نے خود اپنے پیروں پر ماری ہے، یہ برے حالات ہمارے اپنے فیصلوں کی وجہ سے پیدا ہوئے، ہمارے دور میں سوا چھ فیصد پالیسی ریٹ تھا، آج 22 فیصد پر ہے، 22 فیصد پالیسی ریٹ سے کون کاروبار کرسکتا ہے۔