درخت زندگی کی علامت اور دنیا میں آکسیجن مہیا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ، لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جناب شاہد کریم تسلسل سے لاہور کے ماحول اور ہمارے بچوں کو بچانے اور اسے صھت مندانہ ماحول مہیا کرنے کے لیے جہاد نما سماعت کر رہے ہیں اُن کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ اگر اللہ کریم کے بعد شاہد کریم نا ہوتے تو لاہور کی قیمتی اراضی کب کی درختوں سے خالی ہوچکی ہوتی لیکن اب اس مافیا نے آباد کم کرنے یا معزور کرنے کے لیے ایک نیا پلان ترتیب دیا ہے اس پلان مین ظاہر تو یہ لگے گا کہ لاہور کو اس کی ہرایالی لوٹائی جارہی ہے لیکن اس کی آڑ میں ایک قاتل درخت لگایا جائے گا یہ درخت صومالیہ میں پیدا ہوتا ہے اور اسے مقامی زبان میں " قاتل درخت" کہا جاتا ہے ۔
جناب جسٹس شاہد کریم صاحب اس پودے کا نام "کونو کارپس" ہےتاریخی طور پر کونو کارپس صومالیہ کے مقامی درخت کے طور پر جانا جاتا رہا ہے صومالیہ میں کونوکارپس ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ پایا جاتا تھا،چونکہ صومالیہ، جبوتی اور یمن ایک ہی ساحلی پٹی پر واقع ہیں اس لئے دیکھتے ہی دیکھتے یہ پودا جبوتی اور یمن میں بھی نظر آنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے 1980 کے لگ بھگ یہ پودا پاکستان کی حدود میں داخل ہوا اور اس کے بعد یہ قاتل درخت سعودیہ اور شام کی سرحدوں میں بھی چلا گیا اور اب اس کی جڑیں امریکہ اور برازئیل تک پھیلی ہوئی ہیں ۔
کویت میں یہ پودا 1988 میں پہنچا ، لیکن جلد ہی ان ممالک کو احساس ہوا کہ یہ درخت زندگی نہیں موت بانٹ رہا ہے، قطر نے 2010 میں کونوکارپس آبادیوں میں لگانے پر پابندی لگا دی ہے، کویت نے بھی 2014 میں کونوکارپس شہروں اور ایسی جگہوں پر اگانے پر پابندی لگا دی ہے، ایران نے کونوکارپس کو شہروں میں لگانے پر پابندی لگا دی ہے،اگست 2016 میں کمشنر کراچی نے شہر بھر میں کونوکارپس کی خریدو فروخت پر پابندی لگائی ،کونو کارپس پر ہونے والی سائنسی تحقیق کے مطابق کونوکارپس کے پتوں میں مختلف قسم کے 31 کیمیکل پائے جاتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے انسانوں، جانوروں اور پودوں کے لئے فائدے یا نقصان کا باعث بنتے ہیں.
ان کیمیکل میں چند ایک پر تو ریسرچ ہو چکی ہے جبکہ بقیہ پر تحقیق ہونا ابھی باقی ہےجرنل آف فارماسوٹیکل، بائیولوجیکل اینڈ کیمیکل سائنسز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کونو کارپس کا پودا آرائشی پھولوں کے اگاؤ میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے. کونوکارپس کی جڑوں سے نکلنے والے مادے آرائشی پھولوں کے اگاؤ کو 40 فی صد تک کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اسی طرح امریکن جرنل آف پلانٹ سائنسز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کونوکارپس کا پودا مکئی اور رواں کے اگاؤ میں رکاوٹ کا باعث ہے جب مکئی اور رواں کے بیجوں کو کونوکارپس کے پتوں کا 7 فیصد محلول لگا کر بویا گیا تو ان بیجوںکا اگاؤ محض 11 فیصد رہ گیا.
انٹر نیشنل جرنل آف فارمیسی اینڈ فارماسیوٹیکل ریسرچ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کونوکارپس کا پودا زہریلا نہیں ہے، تجربے میں درخت کے پتوں کا جوس نکال کر چوہوں کو پلایا کر ان کا مشاہدہ کیا گیا، چوہے مرنے سے تو خیر بچ گئے لیکن ایسے چوہے جنہیں یہ جوس سب سے زیادہ پلایا گیا تھا ان کے جگر اور گردوں میں بیماری کی علامات ظاہر ہوئیں، اس تجربے سے سائنسدانوں نے یہ نتیجا نکالا کہ کونو کارپس کو ایک زہریلا پودا بہرحال نہیں کہا جا سکتا،پاکستان کے کراچی شہر میں یونیورسٹی آف کراچی کے ریسرچر ڈاکٹر انجم پروین اور اب کے ساتھیوں نے اہم تحقیق میں فضا میں موجود پولن کا مشاہدہ کیا، اس تجربے سے پتا چلا کہ کراچی کی فضا میں مختلف 32 پودوں کے پولن موجود ہیں جن میں سے 12 پودوں کے پولن انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہیں اور الرجی پیدا کرتے ہیں.
اوران بارہ پودوں میں جنگلی چولائی (جڑی بوٹی جس کا قد زیادہ سے زیادہ اڑھائی فٹ تک ہوتا ہے)، ایٹریپلیکس (جھاڑی نما پودا جس کا قد زیادہ سے زیادہ 2 فٹ تک ہوتا ہے)، لانا (ایک جھاڑی نما پودا)، کونوکارپس، لان گھاس، برو، رائی (جو سے ملتا جلتا ایک پودا)، ولائیتی کیکر، اسبغول، باتھوا (باتھو کی قسم کا پودا)، سفیدہ اور دیسی کیکر شامل ہیں.
محققین نے لان گھاس کے بعد کونوکارپس کو استھما (سانس کی ایک بیماری) کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا ہے، اس پودے پر ابھی حتمی تحقیق ہونا باقی ہے،کبھی کبھی ایک پودا جو ایک ملک میں فائدہ مند ہوتا ہے ،دوسرے براعظم یا ملک کی آب و ہوا سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے نقصان دہ پودا بن جاتا ہے،یہ پودا بجائے انسانی صحت کے لیئے مفید ہونے کے انسانی صحت کے لیئے مضر ہے ،محکمہ موسمیات اور حکومتِ پاکستان سے اس کی شجر کاری کرنے پر پابندی کی اپیل کرتے ہیں ۔ تا کہ آنے والی نسلوں کے لیئے صاف آب و ہوا کے لیئے لگائے جانے والے درخت ان کی صحت کے لیئے نقصان دہ ثابت نا ہوں ،جیسے ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اسی طرح ہر سبز پودا فائدہ مند نہیں ہوتا ،اس کے اُگائے جانے پر پابندی عائد کی جائے اور رہائشی سوسائٹیز میں اسے ہر گز نا لگایا جائے, اس کی جگہ پیپل نیم، دھریک، بکین، ٹاہلی، پاپولر، شیشم جیسے انسان دوست درخت لگائے جانے چاہیئں۔