آئی ایم ایف کا دورہ ، کیا سب اچھا ہے ؟
تحریر: وقاص عظیم
Stay tuned with 24 News HD Android App
آئی ایم ایف کا مشن پاکستان کے دورے کے بعد واپس امریکہ جا چکا ہے ، آئی ایم ایف کے حالیہ دورے پر کئی لوگ حیران اور پریشان تھے ، سینیئر صحافی شہباز رانا نے تقریبا ہر خبر میں اس دورے کو اچانک اور "ان شیڈول" لکھا ، روزنامہ بزنس ریکارڈ میں بھی ایک مضمون لکھا گیا کہ آئی ایم ایف کو ایک منشی یا اکاونٹنٹ کا طرز عمل اختیار نہیں کرنا چاہیئے ان دوستوں سے عرض ہے کہ جس نے بھی ادھار پر رقم دی ہوتی ہے اسے زیادہ پریشانی ہوتی ، ادھار لینے والا تو پیسہ لے کر کھا پی جاتا ہے ، اسے یہ بھی ٹینشن نہیں ہوتی کہ وہ اس ادھار کو کیسے واپس کرے گا ؟ کیونکہ اسے ادھار لینے کی عادت ہوچکی ہوتی ہے ، پاکستان کی بھی یہی حالت ہے اور پھر یہ جب بھی آپ اپنی رقم واپسی کا مطالبہ کریں گے پاکستان جیسے ملک اور ہماری انفرادی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی نہ کوئی بہانہ لگائیں کہ ابھی پیسے نہیں ہیں ۔
آئی ایم ایف کو بھی یہی فکر ہے کہ پاکستان سے 7 ارب ڈالرز قرض کا معاہدہ تو کر لیا ہے مگر پاکستان یہ قرضہ کیسے واپس کرے گا ؟ پوری دنیا میں اب پاکستان کی ساکھ متاثر ہوچکی ہے دنیا جانتی ہے کہ پاکستان جو وعدے کرتے ہے ان سے مکر جاتا ہے ، پاکستان کی حکومت جھوٹ بولتی ہے ۔ اعدادو شمار کا ہیر پھیر کرتی ہے ، جعلی رپورٹس تیار کرتی ہے اور معاشی اصلاحات کے نام پر عالمی اداروں سے دھوکہ دہی کرتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جیسے مالی سال کی پہلی سہ ماہی گزری آئی ایم ایف کو فکر لاحق ہوگئی کہ پاکستان نے جو شرائط تسلیم کی تھیں ان پر عمل درآمد نہیں کیا ، جو وعدے کیے تھے وہ بھی پورے نہیں کر رہا ، اس لیے وہ بھاگے بھاگے پاکستان پہنچ گئے ، اس میں حیرانی اور پریشانی کی کوئی بات نہیں،حکومت نے آئی ایم ایف مشن کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ، اللہ خیر کرے گا ، ابھی تو صرف تین ماہ گذرے ہیں ، مالی سال کے اختتام پر آپ کی ساری شرائط پوری کر دی جائیں گی ، آپ نے گھبرانا نہیں ہے ، ایسی کون سی قیامت آگئی ہے کہ ابھی تین مہینے نہیں گزرے کہ آپ واشنگٹن سے بھاگ کر اسلام آباد آ پہنچے ہیں ۔
لیکن آئی ایم ایف حکام نے پاکستان سے کہا کہ جناب آپ کو پیسے مفت میں نہیں دیے ، آپ اپنے کرتوت چیک کریں ، حکومت پاکستان نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ چین ہمارا دوست ہے وہ چار ارب ڈالرز کا ڈیپازٹ دے دے گا، سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے وہ ہمیں پانچ ارب ڈالرز کا سیف ڈیپازٹ دے دے گا ، اس کا کیا ہوا ؟ وہ پیسہ کب ملے گا ؟ آئی ایم ایف نے وزارت خزانہ کے حکام سے سوال کیا کہ جولائی سے ستمبر تک کی سرکاری رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب سرپلس بجٹ نہیں دے سکا ، وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف مشن کی آمد سے قبل جو رپورٹ وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر جاری کی اس میں مریم نواز شریف کی حکومت کا خسارہ 160 ارب روپے تھا ، یہ رپورٹ آئی ایم ایف کو بھی پیش کردی گئی تھی ، لیکن پانچ روز میں وزارت خزانہ کے حکام پر الہام نازل ہوا کہ نہیں نہیں ۔
پنجاب حکومت کا کوئی خسارہ نہیں ہے بلکہ مریم نواز شریف کی حکومت کو سرپلس بجٹ دے رہی ہے کیونکہ مریم نواز شریف نے خاموشی سے 200 ارب روپے کی سرمایہ کاری ٹی بلز میں کر رکھی تھی ، جس کے بارے میں صرف پنجاب کی حکومت کو ہی علم تھا ، وزیر اعظم اور وفاقی وزیر خزانہ اس سے لا علم تھے ، مذاکرات کے آخری روز وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کے سامنے پہلی سہ ماہی کی نظر ثانی شدہ رپورٹ رکھ دی اور بتایا کہ جو رپورٹ پہلے دی تھی وہ غلط تھی اب جو رپورٹ دی ہے یہ ٹھیک ہے ، کیونکہ اس میں ہمیں 200 ارب روپے کی سرمایہ کاری کا سراغ ملا ہے۔
وزارت خزانہ نے اپنی ویب سائیٹ پر نظر ثانی شدہ اعداد و شمار آویزاں کر دیے ہیں جن کے مطابق پنجاب کا صوبائی سرپلس 40 ارب روپے ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے نظر ثانی شدہ صوبائی سرپلس کے حساب سے حکومت پاکستان نے مالی سال 25۔2024 کی پہلی سہہ ماہی میں آئی ایم ایف کے ساتھ طے پائے 342 ارب صوبائی سرپلس کے ہدف کے مقابلے میں 360 ارب روپے کا صوبائی سرپلس حاصل کر لیا ہے آئی ایم ایف حکام بھی ایک دوسرے کو منہ کو تکتے رہ گئے ۔ اور وزارت خزانہ کو داد دی ۔۔
آئی ایم ایف کے ساتھ قرض معاہدے کے لیے پاکستان نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ جنوری 2025 سے صوبے زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی کے لیے قانون سازی مکمل کر لیں گے لیکن ابھی تک چاروں صوبوں کے مابین قومی مالیاتی معاہدے پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا ، صوبہ پنجاب زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی کے لیے قانون سازی کر رہا ہے ، آئی ایم ایف نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے 190 ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کے بارے میں بھی سوالات کیے لیکن ایف بی آر اور وزارت خزانہ نے انہیں مطمئن کرکے بھیجا کہ شارٹ فال سال کے آخر میں شمار کیا جاتا ہے کہ کیونکہ ہر مہینے کا حساب کتاب تو اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے، ایف بی آر کو ٹیکس شارٹ فال بارے کوئی پریشانی نہیں ہیں ایف بی آر اپنے چیئرمین کی قیادت میں رواں سال 9 ہزار 370 ارب روپے کا ٹیکس ہدف آسانی سے حاصل کر لے گا۔ اس کے لیے نہ تو کوئی منی بجٹ آئے گا اور نہ ہی کوئی اضافی ٹیکس اقدامات لیے جائیں گے ۔
آئی ایم ایف نے پاکستان سے واپسی وزارت خزانہ کو یاد دہانی کرائی ہے کہ قرض پروگرام کی شرائط پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے ، جو لوگ ٹیکس ادا نہیں کر رہے ان سے ٹیکس لیا جائے ، حکومت سرکاری کاروبار سے باہر نکل آئے ، غذائی اجناس کی قیمتوں کا تعین حکومت نہ کرے ، بجلی اور گیس کی قیمتوں پر غیر ضروری سبسڈیز ختم کی جائیں ، سماجی اور ترقیاتی اخراجات صوبوں کو منتقل کیے جائیں آئی ایم ایف کا وفد آیندہ سال 2025 کی پہلی سہ ماہی میں پھر پاکستان آئے گا۔