آئینی ترمیم کی منظوری کا فائنل راؤنڈ شروع،مولانا فضل الرحمان بھی مان گئے

Oct 16, 2024 | 09:33:AM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے اہم آئینی ترامیم کا ڈراپ سین ہونے والا ہے۔کیونکہ حکومت ایک بڑا سیاسی دھماکا کرنے جارہی ہے۔حکومت نے 26 ویں آئینی ترمیم کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس 17 اکتوبر کی شام کو بلانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔حکومت نے اس حوالے سے اپنے تمام اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز کو کل تک اسلام آباد پہنچنے کی بھی ہدایت کر دی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ آئینی ترامیم کے حوالے سے پارلیمانی خصوصی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بھی کل طلب کرلیا گیا ہے ۔یہ اجلاس چیئرمین خورشید شاہ کی زیر صدارت دوپہر 12 بجے ہوگا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے مولانا فضل الرحمان کو آئینی ترامیم کے حوالے سے منا لیا ہے؟۔ابھی تک مولانا کا اِس پر کیا مائنڈ سیٹ ہے وہ اب تک واضح نہیں ہوسکا۔لیکن بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو آئینی مسودے پر اب بھی تحفظات ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج بلاول بھٹو مولانا فضل الرحمان کے درمیان اہم ملاقات ہوئی ۔ دونوں رہنماؤں میں ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بات چیت بھی ہوئی ۔ بہرحال آج میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہمارے مسودے کے بغیر اب آئین سازی نہیں ہوسکے گی، شہباز شریف کے پاس اکثریت ہی نہیں ہے ۔ہم یہ ترامیم منظور نہیں ہونے دیں گے۔


اب سوال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان اگر ابھی تک راضی نہیں ہوئے تو حکومت اِتنے یقین کے ساتھ قومی اسمبلی کا اہم اجلاس کیسے بلانے جارہی ہے۔نمبر گیم دیکھیں تو قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے 224 اراکین کی حمایت درکار ہے مگر قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں اس وقت حکمراں اتحاد میں شامل پارٹیوں کے اراکین کی مجموعی تعداد 215 ہے۔ان میں مسلم لیگ (ن) کے 111، پاکستان پیپلز پارٹی کے 70، ایم کیو ایم کے 22، مسلم لیگ (ق) کے پانچ استحکام پاکستان پارٹی کے چار، مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی، اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔اب جب حکومت کے نمبر پورے نہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت دیگر آپشن پرکام کر رہی ہے ۔جیسا کہ آرٹیکل 63 اے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب منحرف رُکن کا ووٹ کاسٹ ہو سکے گا۔ اورحکومت کے پاس تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ اراکین کے ووٹ توڑنے کا آپشن موجود ہوگا۔اور ممکن ہے حکومت نے اِس آپشن پر کام شروع کردیا ہو۔تھریک انصاف کے اراکین تو حکومت پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اُن کا ووٹ خریدنے کی کوشش ہورہی ہے۔پی ٹی آئی کے ایم این اے اقبال آفریدی یہ دعوی کر رہے ہیں کہ اُنہیں 80 کروڑ سے ایک ارب روپے کی آفر دی گئی تاکہ وہ اہم آئینی ترامیم میں حکومت کا ساتھ دیں لیکن اُنہوں نے یہ آفر مسترد کردی۔


بہرحال پی ٹی آئی اِس معاملے پر وکٹم کارڈ کھیل رہی ہے ۔پی ٹی آئی کا یہ الزام ہے کہ اُس کو دیوار کے ساتھ لگانے کیلئے حکومت آئینی ترامیم لارہی ہے ۔خاص طور پر حکومت چیف جسٹس کو اُن کی مدت ملازمت میں ایکسٹینشن دینا چاہتی ہے۔جبکہ حکومت کی جانب سے جو آئینی ڈرافٹ کے نکات سامنےآئے تھےا ُن میں یہ آپشن موجود تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر3سینئر ترین ججز میں سے کیا جائیگا۔یعنی حکومت جس کو چاہے اُن تین سینئر ججز میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس تعینات کرسکے گی ۔اِس لئے اگر موجودہ چیف جسٹس کو ایکسٹینشن نہیں بھی ملتی تب بھی حکومت کی صحت پر شاید اب اِس کا اثر نہ پڑے۔ اور سینیٹر کامران مرتضیٰ تو یہ انکشاف بھی کر رہے ہیں کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استنبول کی ٹکٹ بک کروا لی ہے اور اسکے بعد وہ عمرے کے لئے چلے جائیں گے اُن کے اِس رویے سے لگتا ہے کہ چیف جسٹس ذہنی طور پر ریٹائرمنٹ کیلئے تیار ہیں ۔


اب دیکھا جائے تو حکومت کے پاس آئینی ترامیم میں کئی آپشنز موجود ہیں جس کے بعد اگر چیف جسٹس قاضی فائز کی ایکسٹینشن نہیں ہوتی تو حکومت کیلئے معاملات تب بھی آسان رہیں گے ۔البتہ جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس ہوتے ہیں یا نہیں اس پر معاملہ طےہونا باقی ہے کیونکہ اگر آئینی ترامیم فوری منظور ہوجاتی ہیں تو حکومت کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ تین سینئر ترین ججز میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس تعینات کردے۔ اور اُس صورت میں جسٹس منصور علی شاہ کی جگہ کوئی اور سینئر جج چیف جسٹس بن سکتا ہے۔تو اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ تحریک انساف کیلئے بڑا سیٹ بیک ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف فرسٹریشن میں ایس سی او کانفرنس کے دوران ڈی چوک پر احتجاج کرنا چاہتی تھی ۔لیکن پھر اچانک سے پی ٹی آئی نے احتجاج کی کال واپس لے لی ہے ۔بدلے میں حکومت نے آج ڈاکٹر عاصم یونس کو بانی پی ٹی آئی کے علاج معالجے کیلئے اڈیالہ جیل بھیج دیا ہے۔ جس کے بعد یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ شاید حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان آئینی ترامیم کو لے کر کچھ دو اور کچھ لو کی پالیسی کے تحت معاملات طے ہوگئے ہیں ۔کیونکہ تحریک انصاف تو احتجاج کرنے پر باضد تھی اور علی امین گنڈاپور نے بھی کہا تھا کہ احتجاج ہر صورت ہوگا۔جبکہ کل ہمارے پروگرام میں شوکت بسرا نے گفتگو کرتے ہوئے یہی بات کی تھی ۔


اب حکومت ور تحریک انصاف دونوں کے انداز دونوں کے تیور بدلے بدلے سے لگ رہے ہیں جس سے یہ گمان ہورہا ہے کہ ایسا کچھ ہے جس کی پردہ داری کی جارہی ہے لیکن پردہ ہٹ جائے گا اور دھندلاتے مناظر جلد واضح ہونے لگیں گے۔

دیگر کیٹیگریز: ویڈیوز
ٹیگز: