شنگھائی تعاون تنظیم، پاکستان اور مشرق وسطیٰ
تحریر: تصور حسین شہزاد
Stay tuned with 24 News HD Android App
مشرق وسطیٰ کو اسرائیل نے آگ کی بَھٹی بنایا ہوا ہے، ایک برس سے زائد عرصہ ہو گیا، جنگ ہے، کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ اس معاملے میں عالمی برادری کا رویہ انتہائی منافقانہ سامنے آیا ہے۔ البتہ مغربی حکمرانوں کے برعکس، مغربی عوام نے انسانی اقدار کے ابھی زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے، فلسطین کے مظلوموں کیلئے آواز اٹھائی ہے۔ بہت سے ممالک میں فلسطینیوں کے حق اور امریکہ کیخلاف مظاہرے جاری ہیں۔ کل نیویارک میں بہت بڑا مظاہرہ ہوا۔ امریکہ اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کر رہا ہے۔ سارا گولہ بارود امریکہ سے ہی اسرائیل کو فراہم کیا جا رہا ہے اور اسرائیل نے اسی اسلحہ کے بل بوتے پر غزہ کو قبرستان میں تبدیل کر دیا ہے بلکہ اب تو قبرستان کیلئے بھی جگہ کم پڑ گئی ہے۔
فلسطینی اپنی آزادی کی جدوجہد میں ایک طویل عرصے سے مصروف ہیں لیکن حماس نے اچانک 7 اکتوبر2023ء کو اسرائیل پر کامیاب حملہ کرکے اپنی بقاء اور آزادی کی بنیاد رکھ دی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر حماس کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ اچانک اسرائیل پر حملہ کرکے اسے مشتعل کر دیا، اور اسرائیل نے غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا۔ چیئرمین انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلشیشن اینڈ میڈیا ریسرچ، میرے بڑے بھائیوں جیسے، میرے استاد اور حقیر سے بے حد پیار کرنیوالے، سینیئر کالم نگار و تجزیہ کار محمد مہدی نے حماس کے ترجمان سے بھی اور ایک عرب صحافی سے بھی، یہی سوال کر ڈالا، کہ حماس کو کیا ضرورت پڑ گئی تھی کہ وہ اسرائیل پر اس طرح کا حملہ کرتی؟ جس کے جواب میں عرب صحافی نے جواب دیا، عرب دنیا اسرائیل کو تسلیم کئے جا رہی تھی۔ سعودی عرب کیساتھ معاملات آخری مرحلے میں داخل ہو چکے تھے۔ عربوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کر لینے کے بعد مسئلہ فلسطین صرف کتابوں میں رہ جاتا اور عرب ممالک کی تقلید میں دیگر مسلمان ممالک بھی اسرائیل کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے۔
عرب صحافی نے کہا کہ ’’جب پاکستان کی پارلیمنٹ میں ایک خاتون رکن نے اسرائیل کے حق میں تقریر کی تھی، تو بس، ہم ہی جانتے ہیں، کہ ہمارے دل پر کیا قیامت گزر گئی تھی۔ اس لئے ہمارے لئے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کیلئے کوئی راستہ نہ تو مغرب نے چھوڑا تھا، نہ مسلمانوں سے اب توقع رہ گئی تھی کیونکہ مسلمان حکمران تو خود اسرائیل کے سامنے ڈھیر ہو رہے تھے۔ بس ہم نے فیصلہ کیا کہ اب اپنی بقاء کیلئے نہتے ہی کچھ کرنا ہوگا، اور یوں ہم نہتے ہی اسرائیل پر ٹوٹ پڑے۔ عرب صحافی نے کہا کہ ’’ہمارے خدشات درست ثابت ہوئے، نہ تو دنیا کی کوئی طاقت اسرائیل کو روک سکی اور نہ ہی کسی نام نہاد عالمی اخلاقیات کا اسرائیل پر اثر ہوا۔ فلسطینی تو اپنے لہو سے اسرائیل کے آگے دیوار کھینچ رہے ہیں۔ کیا دنیا اسرائیل کو کسے تصفیے کی طرف لا سکے گی تو اس کا جواب نفی میں ہے‘‘۔ اسرائیل تو اتنا خود سر ہو چکا ہے کہ اقوام متحدہ کی امن فوج پر حملہ کر رہا ہے۔ کہاں ہیں، عالمی انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں؟ کہاں ہے عالمی برادری؟ جہاں مسلمانوں کو خون بہہ رہا ہو، وہاں عالمی برادری جان بوجھ کر چشم پوشی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس لئے امت مسلمہ اپنی بقاء کیلئے اپنا وقعت بنانا ہوگی۔ اپنا وقار خود قائم کرنا ہوگا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس شروع ہونے سے قبل پاکستان میں بدامنی پھیلانے کی سازش کی گئی۔ دشمن نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان میں بدامنی ہی بدامنی ہے۔ سیاسی بے سکونی پاکستان کا مستقل مسئلہ ہے۔ پاکستان کو اپنے سیاسی بحران کو حل کرنے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ ایسا میکانزم بنانا ہوگا کہ جو حکومت اقتدار میں آ جائے اسے اس کی مدت پوری کرنے دینی چاہیئے۔ اپوزیشن میں آنیوالی جماعتیں اگلے 5 سال اپنی باری کا انتظار کریں۔
ضرورپڑھیں:عمران خان کی ناقابل علاج بیماری ، آکسفورڈ والوں نے بھی نکال دیا
عوامی خدمت کرکے اپنی ’’ورتھ‘‘ بنائیں اور اس کا پھل اگلے الیکشن میں پائیں۔ کراچی میں چینی باشندوں کو بی ایل اے نے نشانہ بنایا۔ پولیس چوکیوں اور فوجیوں کے قافلوں پر حملے ہوئے۔ پھر لاہور میں ایک کالج میں طالبہ کے ایشو کو اس انداز میں اچھالا گیا کہ لگ رہا تھا کہ اس توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراؤ میں ایک منظم قوت شامل ہے جس نے بڑے منظم انداز میں پورے ملک میں مظاہرے ارینج کئے ہیں اور ان میں طلبہ استعمال ہو رہے ہیں۔ طالبہ کیساتھ زیادتی واقعی ایک بہت بڑا جرم ہے، اس کے ذمہ دار اور مجرموں کو سرعام لٹکا دینا چاہیئے، مگر اس واقعہ کی آڑ میں دیگر سازشوں کی بُو واضح محسوس ہو رہی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کو پاکستان کی برکس تنظیم میں شمولیت کے حوالے سے بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اگلا قدم یہ ہوگا۔ چین اور روس کی مشترکہ خواہش ہے کہ پاکستان اس کا رکن بنے۔ کیونکہ روسی صدر چاہتے ہیں ممبئی سے ماسکو تک کوریڈور بنے اور روسی صدر کا یہ خواب پاکستان کی مدد کے بغیر تعبیر حاصل نہیں کر سکتا۔ دوسری جانب انڈیا بھرپور کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کو برکس میں شامل نہ کیا جائے۔ اس حوالے سے انڈیا ساوتھ افریقہ اور برازیل کیساتھ مل کر خوب زور لگا رہا ہے۔ انڈیا کو کاونٹر کرنے کیلئے ہمارے وزیردفاع نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران چین، روس اور ایران کے وزرائے خارجہ کیساتھ ملاقاتیں کی تھیں، جو بہت سود مند رہیں اور پاکستان کو ان کا فائدہ بھی ہوگا۔ انڈین وزیرخارجہ جے شنکر پاکستان میں موجود ہیں۔ ان کے دورے کو بعض مبصرین بڑی گہرائی سے دیکھ رہے ہیں۔ جے شنکر کا دورہ دو طرفہ نہیں۔ اس سے پاک بھارت تعلقات میں بھی کوئی بہتری نہیں آئے گی، کیونکہ جے شنکر کے دورہ پاکستان کے مقاصد میں یہ نقطہ شامل ہی نہیں۔ چین نے بھی اس حوالے سے بہت کوشش کی ہے کیونکہ چین چاہتا ہے کہ اسلام آباد میں ہونیوالی اس کانفرنس کے حوالے سے تمام دنیا میں یہ تاثر جائے کہ اس کانفرنس سے بہت کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ چین نے اس حوالے سے بہت کام بھی کیا ہوا ہے اور پاکستان نے بھی اس حوالے سے اچھا ہوم ورک کر رکھا ہے اور قوی امید ہے، بلکہ سو فیصد امکانات ہیں کہ یہ کانفرنس کامیاب ہو گی۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر