(24 نیوز)اس مہینے کے شروعات سے ہی یہ بحث چل رہی تھی کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال جاتے جاتے کوئی ایسا فیصلہ دے کر جائیں گے جس سے پہلے سے کشیدہ سیاسی صورتحال مزید کشیدہ ہو کر بحرانی صورت اختیار کر لے گی ۔یہ تو چیف جسٹس کے دور کے دوران ان کے تمام سیاسی فیصلے ہی متنازعہ رہے لیکن انہوں نے جاتے جاتے بھی آج نیب ترامیم کا فیصلہ سنا کر نہ صرف پارلیمنٹ کو بے توقیر کیا بلکہ اپنی حدود سے تجاوز کرنے کی بھی کوشش کی۔پروگرام’10تک‘میں میزبان ریحان طارق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل کا پریکٹکلی طور پر یہ آج آخری دن تھا۔ان کے فیصلون کو تاریخ کس طرح یاد رکھے گی اس کا اندازہ چند دنوں میں انہیں بھی محسوس ہونا شروع ہو گا۔آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دیدیں۔آج کے فیصلے میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن نے چئیرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابل سماعت قرار دی جب کہ جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔منصور علی شاہ اختلافی نوٹ لکھا لیکن آج فیصلے سناتے ہوئے ان کے اختلافی نوٹ کو نہیں پڑھا گیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کیس کا مختصر فیصلہ سنایا گیا ہے جس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست کو منظور کر تے ہوئے عدالت عظمیٰ نے پی ڈی ایم کی حکومت کی جانب سے کی گئی بعض ترامیم کو آئین کے منافی قرار دے کر کالعدم کردیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جب کہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔ فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئیں ہیں، فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیئے گئے کیسسز بھی بحال کردیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ کرپشن کے ختم کیے گئے تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شق بحال رکھی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی، پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔ فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دی گئی ہیں۔ اس کیس مین جسٹس منصور نے اختلافی نوٹ لکھا۔ابھی تک وہ اختلافی نوٹ سامنے نہین آیا لیکن اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس اختلافی نوٹ میں کیا ہوگا۔کیونکہ کیس کی سماعتوں کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ کے معطل قانون (پریکٹس اینڈ پروسیجر) کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے بار بار کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے پر زور دیا تھا۔اہم، چیف جسٹس نے اس کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ان کی ریٹائرمنٹ قریب ہے اور یہ معاملہ کافی عرصے سے عدالت کے سامنے زیر التوا ہے۔ایک سماعت کے دوران جسٹس سید منصور علی شاہ نے یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ بعض اوقات ایسا لگتا ہےکہ زور لگا لگا کر تھک گئے کہ نیب ترامیم آرڈیننس (این اے او) میں غلطی نکلے لیکن مل نہیں رہی۔انہوں نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ترمیم بعض سیاستدانوں اور ان کے خاندان کے افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہیں، تو اس کا واحد دستیاب علاج یہ ہے کہ انہیں انتخابات میں مسترد کر دیا جائے اور نیب قوانین کو بہتر بنانے کی ترامیم لانے کے لیے نئی پارلیمنٹ کا انتخاب کیا جائے۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے تھے کہ انتخابات قریب ہیں، ایک ہی آپشن ہے کہ نئی پارلیمنٹ کا انتظار کیا جائے، جو قانون کا جائزہ لے اور بہتری لائے، عدلیہ اور پارلیمنٹ کو اپنے اپنے کام کرنے دیں، آئین کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک جمہوریت کو چلنے دینا ہے۔ نیب ترامیم کالعدم ہو چکی ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ ان ترامیم کے کالعدم ہونے سے کون کون متاثر ہوگا؟معلوم شواہد کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری سمیت 6 سابق وزرائے اعظم کے خلاف کیسز دوبارہ کھل گئے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آصف علی زرداری، نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس واپس بحال ہو گیا ہے۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا ایل این جی ریفرنس احتساب عدالت سے منتقل ہو گیا تھا اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور ریفرنس بھی واپس ہو گیا تھا جو اب دوبارہ بحال ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ سابق وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف بھی کیسز دوبارہ کھل جائیں گے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس کیس کا فیصلہ تو سنا دیا۔لیکن مستقبل یہ فیصلہ اپنی جگہ ٹھہرتا نظر نہیں آتا۔کیونکہ امید ہے جلد یا بدیر متاثر ہونیوالے افراد رویو پٹیشن میں جائینگے ،۔عمر عطا بندیا ل رخصت ہو چکے ہونگے اور اس کے بعد اگر نئے بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ کے زہن سےمطابقت رکھنے والا کوئی بھی جج بینچ کا حصہ ہوا تو یہ فیصلہ جلد ہی اپنے انجام کو پہنچے گا۔دوسری جانب پریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر بل سماعت کے لیے مقرر کر لیا گیا، کیس کی سماعت 18 ستمبر کو ہوگی۔سپریم کورٹ کا لارجر بینچ سماعت کرے گا، آٹھ رکنی لارجر پہلے ایکٹ پر حکم امتناعی جاری کرچکا ہے اور ممکنہ طور سپریم کا فل کورٹ تشکیل دیے جانے کا امکان ہے۔اگر فل کورٹ یا لارجر بینچ اس کیس پر لگے اسٹے کو ہٹا دیتا ہے تو تب بھی متاثرین کے پاس دو آپشن موجود ہونگے ۔وہ تب اس کیس کے رویو میں جا کر لارجر بینچ کے ذریعے ریلیف حاصل کر سکے گے۔ورنہ سپریم کورٹ پرایکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری کے بعد رویو کے بعد کسی بھی فیصلے کے بعد اپیل کا آپشن بھی موجود ہوگا۔جسٹس عمر عطا بندیال آج کے فیصلے کے قبل ہی اکثریت سیاسی جماعتون کے نزدیک متنازعہ چیف جسٹس تھے۔لیکن اب وہ جماعت بھی ان کے حق میں نہیں دکھائی دیتی جس کے بارے میں چیف جسٹس پر الزام لگایا جاتا کہ وہ اس جماعت کے حق میں فیصلے کرتے ہیں ۔ پی ٹی آئی بھی رات قاسم خان سوری کی رولنگ کیخلاف رات 12 بجے عدالتیں کھولنے اور 14 مئی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرانے پر ان کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔اس فیصلے کے بعد سیاسی جماعتوں کے متعدد رہنماوں نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور سابق وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا نیب ترامیم کیس کے حوالے سے یہی فیصلہ متوقع تھا، ہمارا شروع سے مؤقف ہے نیب آمر کا بنایا گیا ادارہ ہے اسے بند ہونا چاہیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا جاتے جاتے متنازع فیصلہ،کیا نتائج نکلیں گے؟
Sep 16, 2023 | 10:04:AM
Read more!