مقدمے کا سال بھر میں فیصلہ نہ کرنے پر ججز کے خلاف کارروائی ہوگی، وزیر قانون

Sep 16, 2024 | 15:50:PM
مقدمے کا سال بھر میں فیصلہ نہ کرنے پر ججز کے خلاف کارروائی ہوگی، وزیر قانون
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز) وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ے کہ حکومت ایک نیا قانون لانے جا رہی ہے جس کے تحت سال بھر میں مقدمے کا فیصلہ نہ کرنے والے ججز کے خلاف تادیبی کارروائی ہوگی۔

تفصیلات کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے قانون سازی کرے، انھوں نے کہا کہ اسد قیصر میرے محترم ہیں، اسپیکر کی کرسی پر براجمان رہے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ڈرافٹ تو تب سامنے لایا جائے جب بل ایوان میں پیش کیا جائے، کابینہ میں معاملہ آتا ہے آس کے بعد کابینہ کی خصوصی کمیٹی اس کو جانچتی ہے، کابینہ اور خصوصی کمیٹی کے بعد پارلیمنٹ میں بل آتا ہے، ابھی یہ بل مسودہ بن کر کابینہ نہیں گیا تو اس کو ایوان میں کیسا لایا جا سکتا ہے، ہم نے اتحادیوں سے بل پر مشاورت کی تھی، اپوزیشن کا کام حکومتی بل پر تنقید کر کے اس میں سے چیزیں نکلوانا ہے لیکن جب ہمارا کام پورا ہو گا تو ہی ہم آپ تک مسودہ پہنچائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ  آئینی ترمیم کوئی نئی بات نہیں یہ چارٹر آف ڈیموکریسی کا حصہ ہے، ہم اپنی مخالفتوں اور ٹائمنگ کی وجہ سے اپنی داڑھیاں کھینچتے رہتے ہیں اور اپنی ساری طاقت جا کر جھولی میں ڈال کر آجاتے ہیں، خدارا مضبوط ہو کر کھڑے ہوں کہ 25 کروڑ عوام نے آپ کو اختیار دیا ہے، آپ نے ملک کی ڈائریکشن طے کرنی ہے اور بتانا ہے کہ ملک کیسے چلنا ہے، چیف جسٹس نے چینی کا ریٹ طے نہیں کرنا ہے، چیف جسٹس نے بجلی کے کھمبے لگانے کا حکم نہیں دینا، چیف جسٹس نے نہیں بتانا کہ کون سی سیاسی جماعت نے کیسے چلنا ہے، منشور اس ایوان میں بیٹھے لگوں نے دینا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جب آئینی ترامیم کا معاملہ کمیٹی میں آیا تو میں نے وہاں آئینی عدالت کی تجویز پیش کی جسے فوری طور پر چیف جسٹس پاکستان کی مدت ملازمت سے جوڑ دیا گیا، آئینی عدالت میں ایک چیف جسٹس اور 7 سے 8 ججز کی تعیناتی کی بات سامنے آئی ہے، اس آئینی عدالت میں تمام اکائیوں کی نمائندگی ہو گی، اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے معاملات سپریم کورٹ جائیں اور وہیں پر حل ہوں کیونکہ ہم یہ معاملات اکٹھے بیٹھ کر حل نہیں کر سکتے، ہم نے اتنی نادانیاں کی ہیں کہ سارا اختیار دیوار کے اس پار دے دیا ہے، کچھ اس پار ہے اور کچھ اس سے آگے ہوگا، یہ کب واپس آئے گا جب آپ نے اپنا اختیار استعمال کرنا شروع کرنا ہے اور وہ اختیار قانون سازی کا اختیار ہے۔

وزیر قانون کا کہنا تھا ابھی تو ہم ضابطہ فوجداری کا ایک پیکج لا رہے ہیں جس میں گرفتاری سے لیکر ایف آئی آر کے اندارج، چالانوں کے داخلے، پراسیکیوشن کے کردار اور ضمانتوں اور مقدمات کے فیصلوں تک 90 مختلف ترامیم شامل ہیں، ٹرائل کی ٹائم لائن سے لیکر ایک سال تک جج کو فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ اس جج کے خلاف تادیبی کارروائی ہوگی، یہ سب چیزیں اس کا حصہ ہیں اور میں چیلنج کرتا ہوں کہ اپوزیشن جس بار کونسل سے کہے گی وہاں یہ پیکج لیکر جائیں گے، اگر یہ پیکج مسترد ہوا تو میں جوابدہ ہوں گا۔