مجوزہ آئینی ترامیم ،بلی واپس تھیلے میں چلی گئی 

عامررضا خان 

Sep 16, 2024 | 17:19:PM

Amir Raza Khan

مجوزہ آئینی ترمیم کا مسودہ بلا آخر منظر عام پر آگیا اس مبینہ مسودے کے مندرجات کے مطابق  صدر کو کابینہ یا وزیراعظم کی جانب سے بھجوائی جانے والی ایڈوائس پر کوئی عدالت ٹریبیونل یا اتھارٹی انکوائری نہیں کر سکے گی۔ آرٹیکل 48 میں مجوزہ ترمیم ،پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ ڈالنے والے رکن کا ووٹ شمار کیا جائے گا۔ آرٹیکل 63 اے میں مجوزہ ترمیم،بل میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز، آرٹیکل 78 میں مجوزہ ترمیم، ہائی کورٹس اور شریعت کورٹ کے ججز کا تقرر کمیشن کرے گا۔ آرٹیکل 175 اے میں مجوزہ ترمیم، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کمیشن کے سربراہ ہوں گے۔ مجوزہ ترمیم، کمیشن میں آئینی عدالت کے دو سینیئر ترین جج، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین جج شامل ہوں گے، کمیشن میں وزیر قانون، اٹارنی جنرل سینیئر ایڈوکیٹ اور قومی اسمبلی و سینیٹ کے دو دو ممبران شامل ہوں گے،وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کی تقرری کے لیے کمیشن میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ججز کے بجائے آئینی عدالت کے تین مزید ججوں کو شامل کیا جائے گا، سپریم کورٹ کے ججوں کے تقرر کے لیے کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس سپریم کورٹ ہوں گے،سپریم کورٹ کے ججوں کے تقرر کے لیے کمیشن میں آئینی عدالت کے بجائے سپریم کورٹ کے پانچ جج شامل ہوں گے،آئینی عدالت کے چیف جسٹس کا تقرر قومی اسمبلی کی کمیٹی کی سفارشات پر کیا جائے گا، قومی اسمبلی کی کمیٹی آئینی عدالت کے تین سینیئر ترین ججوں میں سے ایک کو نامزد کرے گی، کمیٹی کے نامزد کردہ جج کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے، آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کا تقرر صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر کریں گے۔
آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے تقرر کے لیے قومی اسمبلی کی کمیٹی 8 رکنی ہوگی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی قومی اسمبلی کی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا،چیف جسٹس سپریم کورٹ کے لیے تین سینیئر ترین ججوں میں سے ایک کو کمیٹی نامزد کرے گی،کمیٹی کی جانب سے نام وزیراعظم کو بھجوایا جائے گا جن کی ایڈوائس پر صدر مملکت تقرر کریں گے، وفاقی آئینی عدالت میں چاروں صوبوں کے ججز کی مساوی نمائندگی ہوگی، چیف جسٹس آف پاکستان کے بجائے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کا لفظ استعمال کرنے کی تجویز، کسی دوسرے ملک کی شہریت رکھنے والے کو سپریم کورٹ یا آئینی عدالت کا جج مقرر نہیں کیا جا سکے گا، آئینی عدالت کے ججز 68 سال کی عمر میں ریٹائر ہوں گے، تجویز، آئینی عدالت میں سپریم کورٹ سے آنے والے جج کی مدت تین سال ہوگی، تجویز، سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے چیف جسٹسز کی مدت ملازمت تین سال ہوگی، تجویز، آئینی عدالت کے پہلی مرتبہ ججز کا تقرر صدر مملکت آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے۔

ضرور پڑھیں:عمران خان مجیب الرحمٰن پارٹ ٹو، فیض نیٹ ورک زندہ ہے
بہت ہی مشکل مرحلہ ہےجمعیت  علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اپنے موقف (جائز موقف ) پر ڈٹ گئے کہ ترمیم سے قبل اس کا مسودہ فراہم کیا جائے ، مشاورت شامل کی جائے آنکھیں بند کرکے تو کسی ترمیم کو پاس نہیں ہونے دیا جائے گا ، اس دوران ملاقاتوں کے کئی دور ہوئے مولانا کا گھر ایک ایسے حکیم کی دکان محسوس ہونے لگا جہاں کیا حکومت کیا اپوزیشن سب کے لیے آب حیات میسر تھا ،جو اگر نا ملا تو شائد ان کی موت ہوجائے جیسے تاثر کو جنم دے رہی تھی ۔ 15 اور 16 ستمبر کی درمیانی شب یہ آنکھ مچولی چلتی رہی پورے پاکستان میں ہی ہیجانی کیفیت تھی۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے صرف ایک ہی سوال کر رہا تھا کہ اس آئینی ترمیم میں ایسا کیا ہے جو حکومت اسے لانے میں اتنی بے چینی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اس سے زیادہ بے چینی کا مظاہرہ کر رہی تھی ،یہاں تک کہ مولانا کو ڈیزل اور فضلو کا طعنہ دینے والی تحریک انصاف نے وقت پڑنے پر مولانا کے پیچھے نماز باندھ لی ۔فوٹیج سامنے آئی تو ایک دوست نے پھبتی  کسی کہ " پی ٹی آئی کےسارےانجن ڈیزل پر منتقل ،مولانا سے ری فیولنگ کے لیے گئے ہیں " جتنے منہ اتنی باتیں ایک ٹی وی اینکر نے تو یہ تک کہہ دیا کہ مولانا کو ایک اسلامی دوست ملک سے دباو کا سامنا ہے اور نام لیے بغیر کہا کہ جو اس ترمیم کو لانا چاہتے ہیں وہ اس اسلامی ملک کو مجبور کر رہے ہیں کہ مولانا حکومت کے حق میں ووٹ دیں ۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ ٹی آر پی ریٹنگ لینے کے لیے کہا گیا ہے اس کی تحقیق  ہوگی تو جس ملک کا بھی نام لیا جائے گا اینکر صاف مکر جائے گا میں  نے اُس ملک کا نام ہی نہیں لیا ، ابھی یہ بونگی سُن رہا تھا تو ایک دوست نے لطیفہ بھیج دیا آپ بھی سُن لیں “ مویشی منڈی میں کسی تگڑے مویشی کے آنے کی خبر شہر میں پھیل جائے تو وہاں رش بڑھنے لگتا ہے۔ پے درپے حاضریاں لگنے لگتی ہیں۔ بیوپاری جمع ہوتے  بولیاں بلند کرتے ہیں، ڈیمانڈ دیکھ کر ریٹ اوپر جانے لگتے ہیں پھر دوست یاروں کی یہی دلچسپی رہتی ہے کہ باخبر لوگوں سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ وہ مویشی بک گیا یا نہیں؟  گر بک گیا تو کتنے کا بکا؟
گو اس لطیفے کا پاکستانی سیاست اور موجودہ صورتحال سے کوئی تعلق تو نہیں ہے لیکن آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ مولانا کے اصولی اور صحیح موقف کو بھی کیسے منفی انداز میں پیش کیا جاتا رہا یوں لگتا تھا کہ منڈی لگی ہے جہان ایک کے بعد ایک ٹھیکدار آتا ہے اور جمیعت علما اسلام کے اراکین کا مول لگاتا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے مولانا نے جو موقف اختیار کیا وہ آج 24 کروڑ پاکستانیوں کی آواز تھی کہ ترمیم کرنا اسمبلی کا حق ہے لیکن اندھی ترمیم کسی طور قبول نہیں عوامی نمائندے عوام کی ترجمانی کریں اور یہی مولانا نے کیا اتنے دنوں سے آئینی ترمیم کی جو بلی تھیلے سے باہر آئی تھی واپس تھیلے میں چلی گئی ہے۔

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر 

مزیدخبریں