وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بطور وزیراعلیٰ شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرکے سب کو حیران کر دیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی نگران وزیراعلیٰ نے اتنی سرعت کیساتھ ترقیاتی کام کروائے، نہ صرف نگران، کسی منتخب وزیراعلیٰ نے بھی آج تک ایسی کارکردگی نہیں دکھائی جس سے صوبے یا ملک کی تصویر تبدیل ہوئی ہو، محسن نقوی نے دن رات ایک کرکے عوام کی بہبود کے منصوبے مکمل کروائے۔ ہسپتالوں کی ری ویمپنگ میں انہوں نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا۔ یہ اکثر ہسپتال قیام پاکستان سے قبل تعمیر ہوئے تھے، ان کی تعمیر نوء، ادویات کی فراہمی، وارڈز کی حالت زار سمیت دیگر مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے۔ لاہور کا تاریخی والٹن روڈ، دو ملاوں میں مرغی کی طرح ’’حرام‘‘ تھا۔
کینٹ بورڈ بھی اسے تعمیر نہیں کروا رہا تھا اور ایل ڈی اے اسے کینٹ بورڈ کی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس پر توجہ نہیں دے رہا تھا۔ مگر محسن نقوی نے بطور وزیراعلیٰ اس مسئلے کو حل کیا اور نہ صرف والٹن روڈ کی تعمیر یقینی بنائی بلکہ وہاں فلائی اوور تعمیر کروا کر ٹریفک کا مسئلہ بھی حل کر دیا۔ کیولری گراونڈ سگنل پر گھنٹوں گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہتی تھیں، انہوں نے وہاں بھی انڈر پاس تعمیر کروا کرکے علاقہ مکینوں کو ایک بڑی مشکل سے نجات دلا دی۔ اسی طرح بابو صابو کے مقام پر بھی ٹریفک کا مسئلہ تھا، سگیاں روڈ کی طرف آبادی کی جھکاو بڑھنے اور وہاں ہاوسنگ سوسائٹیز بننے سے ٹریفک کا بہاو بڑھ گیا تھا۔ اس سے نمٹنے کیلئے بند روڈ پر دو پیکیج شروع کروائے گئے۔ پیکج ون نیازی چوک تا سگیاں شروع کیا گیا جبکہ پیکیج ٹو سگیاں تا بابو صابو تعمیر کروایا گیا۔ اس سے لاہور کے باہر سے آنیوالی ٹریفک کو بھی آسانی ہوگی اور سگیاں روڈ کیلئے جانیوالے شہری بھی آسانی سے اپنی منزل پر پہنچیں گے۔ شاہدرہ فلائی اوور بنیادی ضرورت بن چکا تھا۔ محسن نقوی نے اسے بھی دن رات توجہ دے کر مکمل کروایا۔
ضرورپڑھیں:مریم نواز مودی کے نقش قدم پر ،ہنس چلا کوے کی چال
راوی کا دوسرا پل بھی اسی منصوبے کا حصہ تھا، اسے بھی مکمل کروانے کا سہرا محسن نقوی کے سر ہی جاتا ہے۔ امامیہ کالونی ریلوے پھاٹک کا مسئلہ بھی دیرینہ تھا، اور اس پر بھی حدود کی جنگ جاری تھی۔ کوئی اسے ضلع شیخوپورہ میں قرار دیتا تو کوئی اسے لاہور کی حد میں ظاہر کرنے کی کوشش کرتا، مگر محسن نقوی نے اس مسئلہ کو بھی احسن انداز میں حل کرکے اسے بھی تعمیر کروا کر جی ٹی روڈ کے رہائشیوں کا دیرینہ مسئلہ حل کر دیا۔ اب جب محسن نقوی وزیراعلیٰ پنجاب سے وفاقی وزیر داخلہ کے عہدے پر پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے وہاں جا کر سب سے بڑا کام جو کیا ہے، وہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی ’’بدمعاشی‘‘ کا خاتمہ ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین خود بجلی چوری میں ملوث ہیں۔ ان کی ملی بھگت کی بغیر ایک یونٹ بھی چوری نہیں ہو سکتا۔ یہ ملازمین خود پیسے وصول کرکے جیب میں ڈال لیتے اور بجلی کی ڈائریکٹ تار لگوا کر بجلی چوری کرواتے۔ اس چوری ہونیوالی بجلی کا بل، بل ادا کرنیوالے صارفین کے کھاتے میں ڈال دیتے، جس کیلئے اوور بلنگ کی جاتی۔ مثال کے طور پر ایک ڈویژن کو ایک لاکھ یونٹ بجلی ملتی ہے، اس میں اگر ایک ہزار یونٹ چوری کروا دیتے ہیں، تو ان چوری ہونیوالے یونٹس کا بل دیگر صارفین سے وصول کیا جاتا اور یوں ایکسیئن اور ایس ڈی او اپنا کھاتا پورا کرکے بجلی کی پوری قیمت دے دیتے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ لیکن اب محسن نقوی نے اوور بلنگ کا نوٹس لیتے ہوئے کارروائیاں تیز کروا دی ہیں۔ اس مشن پر ایف آئی اے کو ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:معاشی گرداب سے نکلنے کی نئی تدبیریں،کیا کامیابی ملے گی؟
اب تک لاہور میں لیسکو کے 2 اعلیٰ افسر گرفتار ہو چکے ہیں۔ جبکہ دیگر کیخلاف بھی کیسز تیار ہو رہے ہیں اور ان کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جائیں گی۔ ایک چھوٹا گھر جس کے دو کمرے ہیں، ان کا عمومی بل پانچ سے دس ہزار ہوتا ہے، لیکن لیسکو کے ’’شیر جوان‘‘ اووربلنگ کرکے یہ بل 25 سے 30 ہزار روپے تک لے جاتے ہیں۔ ایک وقت تو ایسا آیا تھا کہ شہریوں کو اپنے بجلی کے بلز جمع کروانے کیلئے زیور تک بیچنے پڑے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ ایسا شخص وزیر داخلہ ہے، جس کے سینے میں ایک دردمند دل ہے۔ وہ عوام کے مسائل جانتا ہے اور انہیں حل کرنے کا طریقہ بھی اسے پتہ ہے۔ محسن نقوی نے اووربلنگ کیخلاف جو مہم شروع کر رکھی ہے، اس کے ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ بجلی چوری میں ملوث بہت سے ملازمین نے تاریں ہٹوا دی ہیں، اور بجلی چوروں کو خبردار کر دیا ہے کہ اب اگر بجلی چوری کی تو اپنے انجام کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ اس حوالے سے ایف آئی اے کو بھی خصوصی ہدایات دی گئی ہیں۔ انہیں کسی بھی قسم کا دباو یا سفارش خاطر میں نہ لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ محسن نقوی بطور صحافی ان مسائل سے آگاہ تھے، اور انہیں ان کو حل کرنے کا طریقہ بھی پتا تھا۔ ان کا سیاست سے چونکہ کوئی تعلق نہیں، اس لئے وہ کسی دباو یا سفارش کو بھی کوئی اہمیت نہیں دے رہے۔ یہ احسن اقدام ہے۔ ورنہ سیاستدانوں کی یہاں ہزار مجبوریاں ہوتی ہیں۔ محسن نقوی نے اووربلنگ پر زیرو فیصد ٹالرنس پالیسی اپنانے کا حکم دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد عوام کو ریلیف دینا ہے، اووربلنگ عوام پر ظلم کے مترادف ہے اور وہ یہ ظلم نہیں ہونے دیں گے۔ محسن نقوی نے اس حوالے سے کھل کر کہا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں بجلی چوروں کیخلاف سخت ایکشن لیں اور اس میں جہاں کمپنی ملازمین ملوث ہیں، ان کیخلاف بھی سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
محسن نقوی نے اپنے طور پر بھی سروے کروانے کیلئے ایک ٹیم تشکیل دی ہے، جو خفیہ انداز میں بجلی چوروں کا سروے کرکے رپورٹ محسن نقوی کو دے گی اور یوں ان بجلی چوروں کیخلاف کارروائی کیلئے ایف آئی اے اور پولیس کو ٹاسک سونپا جائے گا۔ لیسکو سمیت دیگر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین کی بھی مانیٹرنگ ہو رہی ہے کہ کہاں کون سا ملازم ’’دیہاڑی‘‘ لگانے میں مصروف ہے۔ ان ملازمین کیخلاف بھی بڑے پیمانے پر کارروائیاں کی جائیں گی۔ حکومت میں موجود وزراء اگر اسی طرح عوام دوست اقدام کا بیڑہ اٹھا لیں تو مسائل اپنی موت آپ مر جائیں گے، مگر اس کیلئے محسن نقوی جیسا جگرا چاہیے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر