دلچسپ صورتحال تھی تندور پر روٹی سے بھی زیادہ گرما گرم بحث ہو رہی تھی، معاملہ تھا روٹی کے سرکاری ریٹ کا ، پنجاب حکومت کی مہربان حکومت نے بیوروکریسی کے کہنے پر ایسی قیمت مقرر کی جومسلسل " فساد فی سبیل اللہ " کا موجب بنے گی، قصہ یوں ہے کہ تنور والا سرکاری نرخنامے کے مطابق 16 روپے کی روٹی فروخت کر رہا تھا گاہک نے بیس روپے دئیے تو تنور والے نے روٹی تھمائی بقیہ چار روپے کا مطالبہ کیا ،دکاندار بولا بھولے بادشاہ اب ایک روپے کا سکہ ہی نہیں ہوتا،اگر میں اسے پانچ روپے واپس کروں تو ایک روپے کا نقصان کروں گا اور اگر یہ بقیہ رقم واپس نا لے تو اس کا چار روپے کا نقصان ہوگا ، سب سوچ میں پڑ گئے کہ کیا کریں؟ اور کیا نا کریں؟
ایک سیانا (جو ایسے مواقعے پر موجود ہی ہوتا ہے ) بولا کہ تم ایک ایک روپے والی ٹافی رکھ لو روپوں کے بدلے ٹافی دے دی ایک روٹی کے 16 روپے بنے تو باقی چار ٹافیاں دو روٹیاں ہوں تو باقی 3 ٹافیاں ، گاہک بولا میں کیوں رقم کے بدلے ٹافی لوں مجھے پیسے واپس چاہئیں۔میں نے کیا روٹی کے بدلے بھائی کو کُرکُرے کا پیکٹ دیا ہے رقم دی ہے تو بقایابھی رقم کی صورت واپس آنا چاہیے ۔
بحث طول پکڑ رہی تھی اور اب تو اردگرد کے دکاندار بھی جمع ہوگئے کریانہ سٹور والا بولا سر جی اب ٹافی بھی پانچ روپے کی ہی آتی ہے ایک روپے کی کوئی گولی ٹافی بھی نہیں کیونکہ بچوں کے پاس ایک روپے کا سکہ ہی نہیں ہوتا اس لیے اب برابر کی قیمت مقرر کردی ہے کمپنیوں نے یا 5 روپے کی ایک یا 5 روپے کی دو ، شیمپو کی تھیلی کسی زمانے میں ایک روپے کی آتی تھا پھر وہ اڑھائی روپے کی ہوئی اور اب بند ہوگئی، سبزی والے نے لقمہ دیا کہ میں تو مرچ دھنیا ڈال کر کریانہ پورا کرتا ہوں ، تندور والا بولا کہ میں کیا بھوسی ٹکڑ دے کر معاملہ برابر کروں اس گاہک کو بقایا 4 روپے مریم نواز ہی دے میرے پاس نہیں ، گاہک نے بلند آواز میں نعرہ لگایا " مریم نواز میرے چار روپے واپس کرو " سب نے قہقہہ لگایا لیکن ایک سوال سب کے چہروں پر آیاں تھا اور وہ سوال تھا کہ چار روپے کیسے واپس کیے جائیں ۔
ضرورپڑھیں:بجلی والوں کی لوٹ مار اور محسن نقوی
یہ تو لاہور کا قصہ ہے دور دراز کی افسر شاہی تو شاہ سے ذیادہ شاہ کی وفادار نکلی کوٹ ادو ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا نوٹیفیکیشن ہے جس پر روٹی کی قیمت 12 روپے اور نان کی قیمت 16 روپے مقرر کی گئی ہے یعنی وہاں روٹی لیں یا نان پھڈا ہوئے گا ، بقایا رقم کے حوالے سے لوگ بہت حساس ہوتے ہیں خاص کر ہمارے پٹھان بھائی تو اصل سے زیادہ اہمیت اُپر والی رقم کو دیتے ہیں کہتے ہیں کریانہ (سکے) پہلے لیکن قومیت کوئی بھی ہو اب یہ قارون وسطیٰ کا زمانہ تو ہے نہیں جہاں اشیاء کے بدل اشیاء دی جائیں اس لیے سب رقم کا ہی تقاضا کریں گے ۔
حکومت نے آٹے کی قیمت میں کمی کی جو خوش آئند ہے لیکن اس کمی کے بعد بیوروکریسی نے جو کچھ پلاننگ کے تحت کیا ہے وہ ہرگز ہرگز خوش آئند نہیں ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے زیادہ تر تنور ایل پی جی گیس پر اور نئے بننے والے پابندی کے باعث ایل این جی ریٹ پر گیس حاصل کر رہے ہیں بجلی کے بلوں ، پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں اور مجموعی مہنگائی کی لہر جو سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 24 فیصد ہے میں کاریگروں کا خرچہ بھی شامل کردیا جائے تو روٹی 12 روپے میں اس وقت گھر میں ( ڈومیسٹک ریٹ ) پر نہیں مل سکتی کوئی اس ڈی سی بہادر بخاری سے پوچھے کے کوٹ ادو میں جو تنور لکڑی اور ایل پی جی سیلنڈر پر چل رہے ہیں وہ 12 کی روٹی 16 کا نان کیسے بیچیں؟ سستا تو آٹا ہوا ہے ملوں نے نان کے لیے فائن کی قیمتوں کو تو کم نہیں کیا ، سارا ملبہ صرف اس لیے دکانداروں پر ڈال رہے ہیں کہ نتیجتاً وہ ہڑتال کریں گے افراتفری پھیلے گی وزیر اعلیٰ کو مشورہ دیا جائے گا مزاکرات کریں اور پھر روٹی اور نان کی وہ قیمت مقرر کرائی جائے گی جو مسلم لیگ ن حکومت کی مقبولیت میں اضافہ نہیں کمی کرئے گی اور یہی اس فیصلے سے وابستہ بیوروکریسی کا شائد مقصد ہے وہ ایک خاتون وزیر اعلیٰ کو قبول کرنے کو تیار نہیں اسی لیے ایک کے بعد ایک ایسے فیصلے کرارہے ہیں جو اسے غیر مقبول بنانے میں اہم ثابت ہوں گے ۔
یہ بھی پڑھیں:مریم نواز مودی کے نقش قدم پر ،ہنس چلا کوے کی چال
روٹی کی قیمتوں میں کمی کا اس سے پہلے میاں شہباز شریف موجودہ( وزیر اعظم) کے دور وزارت اعلیٰ میں بھی شور ہوا تھا جب انہوں نے چھ روپے کی روٹی فروخت کرانے کے لیے مکینیکل تنور متعارف کرائے تھے اپنے پوائنٹ بھی بنوائے جہاں سے میڈیا کے ذریعے واہ واہ کے ڈھول بھی پٹوائے گئے لیکن پھر ہوا کیا؟ آج وہ مکینیکل تنور کہیں کاٹھ کباڑ میں پڑے ہوں گے آج بھی اس کا شور مچایا جارہا ہے روٹی نان سستے کردئیے کمال کردیا تمام وزیر، مشیر چمچے ،کرچھے اپنے اپنے محکمے چھوڑ تنوروں پر چھاپے مار رہے ہیں کوئی نہیں جو یہ آواز اٹھائے کہ جہاں پناہ آٹا سستا ہوا ہے تو روٹی دس روپے کی کردیں لیکن نان اسی قیمت پر بکنے دیں کہ نان بھوک مٹانے کے لیے نہیں خوراک میں عیاشی کے طور استعمال کیا جاتا ہے ویسے مختلف برانڈ کی ڈبل روٹیوں کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہوا ہے وہاں بھی تو گندم استعمال ہوتی ہے اس کی قیمتیں بھی کم کرادیں لیکن نہیں ہمارے حکمران بیوروکریسی کی چالوں کو سجمھے بغیر قدم اٹھاتے ہیں اور منہ کی کھاتے ہیں سبق نہیں سیکھتے ،جانے کیوں ؟
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر