(24 نیوز )بھارت میں مسجد کی تعمیر کیلئےغریب بیوہ کی جانب سے عطیہ کیا گیا انڈہ ساڑھے 7 لاکھ روپے میں فروخت ہو گیا۔
تفصیلا ت کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے شہر سرینگر کے شمالی قصبہ سوپور کے ’مال ماپن پورہ‘ گاؤں میں ایک مسجد کئی ماہ سے زیرِتعمیر ہے، عید کے موقع پر مسجد کمیٹی نے گھر گھر جاکر نقد و جنس عطیات جمع کرنے کا فیصلہ کیا،لوگوں نے نقدی، برتن، مرغیاں، چاول وغیرہ عطیہ میں دیئے،مسجد کمیٹی کے ایک رکن نصیر احمد بتاتے ہیں ’ہم عطیات جمع کر رہے تھے کہ ایک چھوٹے سے گھر سے ایک خاتون سر جُھکائے چپکے سے میرے پاس آئی اور مجھے ایک انڈہ پکڑا کر کہا کہ میری طرف سے یہ قبول کیجیے۔‘
نصیر کا کہنا ہے کہ یہ خاتون نہایت غریب بیوہ ہے اور ایک چھوٹے سے خستہ مکان میں اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں،وہ کہتے ہیں کہ دوسری چیزیں تو بیچنے کے لیے دے دی گئیں ’لیکن میں پریشان تھا کہ اس انڈے کا کیا کریں؟‘نصیر مزید کہتے ہیں کہ ’تھا تو وہ 6روپے کا معمولی انڈہ، لیکن اُس غریب خاتون نے جس جذبے کے ساتھ اسے خدا کی راہ میں دیا، اُس نے اس کو بہت قیمتی بنا دیا تھا۔‘
’لہذا میں نے کمیٹی کے دوسرے اراکین کو مشورہ دیا کہ انڈے کی بولی لگا دی جائے اور 3دن تک فروخت کے بعد انڈہ واپس لیا جائے،نصیر نے مسجد میں خاتون کی شناخت خفیہ رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ اس انڈے کو نیلام کیا جار ہا ہے اور انھوں نے اپنی جیب سے اس کیلئے دس روپے کی بولی لگا دی،نصیر کے مطابق پہلی آواز دس ہزار روپے کی تھی اور اس طرح انڈے کی قیمت بڑھتی گئی،گاؤں کے سابق سرپنچ طارق احمد کہتے ہیں کہ صرف اڑھائی سو لوگوں پر مشتمل مال ماپن پورہ میں بڑی جامع مسجد نہیں تھی، اس لیے جامع مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا، لیکن چھت تک پہنچ کر کام رُک گیا کیونکہ فنڈ نہیں تھے۔
وہ کہتے ہیں ’ہمیں معلوم نہیں تھا کہ محض ایک انڈے سے ہمیں سوا دو لاکھ روپے مل جائیں گے،مسجد کی انتظامیہ نے طے کیا تھا انڈے کی بولی صرف تین دن تک ہو گی، نصیر احمد کہتے ہیں دو دن تک لوگ انڈے پر 10، 20، 30 اور 50 ہزار تک بولی لگا چکے تھے، اور ہر بار انڈہ واپس کر دیا جاتا،پھر اعلان کیا گیا کہ آخری دن شام سات بجے بولی بند ہو جائے گی اور آخری بولی لگانے والے کو انڈہ دیا جائے گا،اس بولی میں سوپور کے نوجوان تاجر دانش حمید بھی تھے،54 ہزار کی بولی پر جب دو بار اعلان ہوا، تو پچھلی صف میں بیٹھے دانش نے بلند آواز میں کہا ’70 ہزار‘،اس طرح یہ انڈہ مجموعی طور پر دو لاکھ، چھبیس ہزار، تین سو پچاس روپے کے نقد عطیات جمع کر پایا، واضح رہے کہ ایک بھارتی روپے کے مقابلے میں تقریبا 3.3 روپے پاکستانی بنتے ہیں ، اس طرح یہ قیمت پاکستانی روپے میں 7 لاکھ 46 روپے بنتی ہے ۔
دانش نے غیر ملکی خبررساں ادارے کو بتایا ’حالانکہ ہمیں نہیں بتایا گیا کہ یہ انڈا کس کا تھا لیکن سب جانتے تھے کہ کسی غریب بیوہ نے یہ انڈہ دے کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور اُس بیوہ نے آسودہ لوگوں کو بڑھ چڑھ کر چندہ دینے پر آمادہ کیا‘وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے ستّر ہزار میں انڈہ خریدا تو اس وقت میری سوچ بھی یہی تھی۔‘
اب انڈا کہاں ہے؟نصیر کہتے ہیں کہ اب وہ انڈہ معمولی نہیں رہا بلکہ اس کی علامتی اہمیت ہے،وہ بتاتے ہیں کہ ’میں اس انڈے کو محفوظ کرنے کا انتظام کر رہا ہوں اور اس کے لیے ایک اچھا فریم بنوا رہا ہوں جس میں اسے محفوظ رکھوں گا‘نصیر کی خواہش ہے کہ ’یہ انڈہ ان کے، ان کے خاندان اور ہر دیکھنے والے کے لیے ایک یاد گار رہے کہ کس طرح ایک بیوہ نے خدا کی راہ میں اسے یہ سوچے بغیر دے دیا کہ اس کی قیمت کیا ہے،وہ کہتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں، خالص اور نیک جذبات کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، اسی لیے یہ انڈہ ہمیشہ ہمارے گھر میں محفوظ رہے گا۔‘