غزہ ، جہاد ، مسخرے 

از: نوید چودھری

Apr 17, 2025 | 15:27:PM
غزہ ، جہاد ، مسخرے 
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ٹرمپ نے بم برسانے کی دھمکی دی ، ایران کو یقین ہوا کہ ایسا ہی ہوگا ، فوری طور پر مذاکرات شروع ہوگئے ، بات سادہ ہے کہ کوئی ملک نہیں چاہتا کہ اس پر جنگ مسلط ہو۔ خصوصاً اپنے سے بڑی طاقت سے کوئی بھی الجھنا نہیں چاہتا۔ یہی کلیہ حماس پر بھی لاگو ہوتا تھا۔ اسرائیل پر حملہ کرنے سے پہلے اپنی عسکری صلاحتیوں کے ساتھ نتائج کا اچھی طرح اندازہ لگانا چاہیے تھا ، جنگ کوئی کھیل نہیں ہوتا کہ سیٹی بجائی اور رک جائے۔ لڑائی چھڑ جائے تو غیر متوقع واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔ دفاع اور حملے میں بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے۔ حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد جو ہوا اور ہورہا ہے اس کے بارے میں جب یہ کہا گیا تھا کہ اہل غزہ کی نسل کشی ہوگی، رقبہ بھی ہاتھ سے جائے گا ، کوئی ملک جنگ میں نہیں کودے گا تو جذباتی انداز میں تنقید کی گئی۔ جن کو نوشتہ دیوار نظر نہیں آرہا تھا ان کے آنکھیں بند کرنے سے حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے تھے۔اسرائیل نے فلسطینی شہریوں پر قیامت ڈھا دی ، بچوں ، بزرگوں ، عورتوں سمیت ساٹھ ہزار سے زیادہ شہید کرنے کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ کرکے خود ہی توڑا ڈالا۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف صرف مسلم ممالک ہی نہیں دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے۔ جنگ زدہ علاقے سے آنے والی ویڈیوز اور تصاویر نے دل دہلا دئیے ہیں۔ بمباری رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ ایسے میں پاکستان کے علما کرام نے اگر یہ فتویٰ جاری کردیا کہ جہاد کرنا لازم ہوچکاہے تو اس پر چیخیں کیوں نکل رہی ہیں۔

مزید پڑھیں:نواز شریف کا سیاسی مستقبل 

 علما کرام کی بات تو سو فیصد درست ہے لیکن جنہوں نے جہاد کرنا ہے انہوں نے پہلے اپنے حالات ، طاقت اور تیاری کو دیکھنا ہے اور یہ بھی کہ ان کے اپنے ممالک پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں ہوں گے۔ جہاد سے مراد ہے کہ یہ لڑائی انفرادی یا گروہی نہیں ریاستی سطح پر لڑی جائے گی۔ اگر ریاستیں خود کو اس قابل نہیں پاتیں تو یقینا ًپہلے کی طرح کوئی بھی اس جنگ میں فریق نہیں بنے گا۔ عجب منافقت ہے اگر خاموش بیٹھیں رہیں تو کہا جاتا ہے کہ دینی غیرت کہاں گئی ؟ اگر فتوے جاری اور تجارتی بائیکاٹ کی اپیلیں کردی جائیں تو مذاق اڑایا جاتا ہے کہ مولویوں نے تماشا لگا رکھا ہے۔ ظاہر ہے دل دکھیں گے تو مظاہرے بھی ہوں، اسرائیل اور اسکے سرپرستوں کا بائیکاٹ بھی کیا جائے گا لیکن یہ بھی لازم ہے کہ ایسے مظاہروں اور بائیکاٹ کے دوران کسی بھی نوعیت کا جانی و مالی نقصان نہیں ہونا چاہئے۔ہم سب اپنے ملک میں رہ کر اظہار یکجہتی ہی کرسکتے ہیں تو ضرور کرنی چاہیے مگر مکمل طور پر نظم و ضبط کے ساتھ ، یہاں تک کہ ہر ممکن کوشش کرکے یقینی بنانا چاہیے کہ راستے بھی بند نہ ہوں ، کاروبار کھلا رہے ، نظام زندگی معمول کے مطابق چلے۔ اپنے ہی ملک کے اندر ہڑتالیں کرکے اپنا نقصان کرانے کی بجائے چندہ جمع کرکے جنگ زدہ علاقے میں طبی اور فلاحی کام کرنے والوں کو وسائل فراہم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ عوامی مظاہرے بھی ضروری ہیں۔ ان کے ذریعے پیغام جاتا ہے کہ اسرائیل کی بدمعاشی کے خلاف عوامی غم و غصہ کس سطح پر ہے۔ ایسی تحریکوں کی قیادت کرنے والوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ لوگوں کے جذبات کو اشتعال کی حد تک نہ آنے دیں۔ ریاست کا فرض ہے کہ ایسے مواقع پر اپنی ذاتی یا کاروباری دشمنیاں نکالنے کے لیے شر پسندی کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے ، غیر ملکی برانڈ کی دکانوں یا ریسٹورنٹس کے اردگرد بھی کسی طرح کی کشیدہ فضا نہیں ہونی چاہیے۔ غزہ والوں کا پہلے ہی بے پناہ نقصان ہورہا ہے ، ان کے نام پر احتجاج کرکے اپنے ملک کا نقصان کرنے والوں کا ساتھ نہیں دیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں:نو مئی والا بلنڈر نہ کریں 

 اظہار یکجہتی کی وہی صورت ہونی چاہیے جو مہذب معاشرے میں ہوتی ہے ، لاکھوں کے اجتماع میں ایک گملا تک تک نہیں ٹوٹتا۔ اب وہ وقت بھی نہیں کہ حماس اور اسے جنگ میں دھکیلنے والے دماغوں کوبرا بھلا کہا جائے۔ صرف ایک ٹارگٹ ہونا چاہیے کہ نقصان کا سلسلہ رک جائے۔ چھوٹی سوچ رکھنے والے جو عناصر فلسطینیوں سے یکجہتی کے لیے مظاہرے کرنے والوں کا مذاق بنانے کی کوشش کررہے ہیں وہ مسخرے ہیں ، صرف مسخرے ، مکرر عرض ہے جہاد ریاست نے ہی کرنا ہوتا ہے ، اس کا وقت بھی آچکا لیکن کیا حالات اجازت دیتے ہیں ؟ ایک سرحد پر انڈیا ہے دوسری پر افغانستان ، بلوچ دہشت گرد تنظیمیں ایران میں اس حد تک سرگرم ہیں کہ وہاں بھی پنجابیوں کو چن چن کر قتل کررہی ہیں ، باقی تمام مسلم ممالک کے بھی اپنے اپنے مسائل ہیں۔ کسی کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے اتنا سوچ لینا چاہیے کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کرنے سے پہلے کس سے مشورہ کیا تھا ؟ اب ضرورت باقی فلسطینیوں کو بچانے کی ہے نہ کہ آپس میں دست گریبان ہونے کی۔

دیگر کیٹیگریز: بلاگ