(ویب ڈیسک)کیا آپ اپنے بچے کے ساتھ رشتے کے اس مرحلے سے گذر رہے ہیں ، جب وہ آ پ سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں؟حالانکہ ایک وقت تھا، جب وہ آپ کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ تو ہوسکتا پے اس رشتے کی دوری کی وجہ جانے یا انجانے میں آپ ہی ہوں، آپ کو چاہیے کہ اس فاصلے کو دور کریں، مگر کیسے؟
والدین بننے کے بعد ان کی تمام توجہ کا مرکز ان کے بچے بن جاتے ہیں۔ ان کی پوری دنیا ان کے بچے کے گرد گھومتی ہے، ہوسکتا ہے ہر ماں باپ کا اپنے بچے کی پرورش کا انداز مختلف ہو، لیکن بہر حال مقصد سب کا ایک ہی ہوتا ہے۔ اور وہ ہے بچے کی فلاح و بہبود۔ لیکن اس کوشش میں بچے پر ہمیشہ اپنی مرضی ، اپنی سوچ اور اپنی پسند مسلط کرنا اس کے اوپر منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔
بحیثیت والدین یہ آپکی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنے بچے کو صحیح رہنمائی فراہم کریں۔ بچے کو پسند آنے والے راستے کے انتخاب اور اس پر چلنے میں اس کی مدد کریں۔ جب والدین اپنے بچے کی خواہشات اور امنگوں کو نظرانداز کرنے لگتے ہیںِ تو بچہ بھی آہستہ آہستہ ان سے دور ہونے لگتا ہے۔
حد سے زیادہ حفاظت کرنا
ہرماں باب کو اپنے بچے سے پیارہوتا ہے۔ لیکن یہ محبت کب تحفظ اور بےجا نگرانی میں بدل جاتی ہے، انہیں خود معلوم نہیں ہوتا ہے۔ اگر بچہ کو ایسا محسوس ہو کہ چار آنکھیں ہر وقت اس کی نگرانی کررہی ہیں تو یہ ان کی شخصیت کو ابھر کر سامنے نہیں آنے دیتا ہے۔ بچے کےچلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، گھومنے پھرنے یا کھیل کود میں بلاوجہ مداخلت بچوں کی شخصیت کو غیر متوازن کر دیتی ہے۔
ضرورت سے زیادہ آزادی
کسی زمانے میں والدین کی پرورش میں یہ اصول بہت اہم تھا کہ کھلاو سونے کا نوالہ، مگر دیکھو شیر کی نگاہ سے۔ مگر اب زمانہ بدل گیا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ والدین کی سوچ بھی بدل گئی ہے ، آج کے والدین سمجھتے ہیں کہ بچوں پر بہت زیادہ پابندیاں نہیں لگانی چاہیے۔ یہی سوچ بعض اوقات ان کے لیے ایک پیچیدہ صورت حال پیدا کر دیتی ہے۔ انہیں دی گئی آزادی کے وہ اتنےعادی ہوجاتے ہیں کہ اپبے لیے ایک لمحے کی غلامی بھی ان کے لیے قابل قبول نہیں ہوتی ہے۔ اور جب ان کی من مانی ان کی شخصیت اور مستقبل میں مسائل پیدا کر دیتی ہے تو ان کے لیے والدین کی اہمیت بھی زیادہ نہیں رہتی ہے۔
سب کچھ ٹھیک کریں مگر توازن کے ساتھ
بچوں کو صحیح سمت میں لے جانے کے لیے والدین کو بہت زیادہ توازن رکھنا ہوگا۔ یعنی بچے کونہ تو بہت زیادہ پابندیاں لگادی جائے کہ اسے اپنے ہاتھ پاوں بندھے ہوئے محسوس ہوں اور نہ انہیں بالکل نظر انداز کر دیا جائے، بلکہ ہر قدم پر ان کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے، تاکہ انہیں احساس ہو کہ ایک ایسی ہستی ہے، جو مشکل وقت میں بھی اس کے ساتھ ساتےقدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے رٓتیار ہے۔ ایک مستقل ساتھی ہے ،جو اسے زندگی تمام پہلووں سے روشناس کرانے کے لیے صحیح سمت لےکے جا رہا ہے۔
دوریوں کو دور کریں
ضروری نہیں کہ ہمیشہ بچہ ہی غلط ہو اورآپ صحیح، بعض اوقات والدین بھی غلطی ہر ہوتے ہیں، اس لیے اگر بچے کے ستھ تعلقات بہتر بنانے ہوں تو پہلے خود کو بدلنے کے لیے بھی آمادہ کریں۔ اس کے لیے والدین کا نقطہ نظر ایک ہونا چاہیے۔ والدین کے درمیان الگ سوچ اور رویوں سے بچے ہمیشہ کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں۔
اگر بچہ کسی خاص رویے کا اظہار کرے تو فورا اس پرردعمل ظاہر نہ کریں ، بلکہ اس کی وجہ جاننے کی کوشش کریں،جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے اس کی ترجیحات اور پسندو ناپسند بھی بدلتی جاتی ہے۔ وا لدین کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ، وہ ان بدلتے رحجانات کے ساتھ نئے راستے تلاش کریں۔ ان کے ساتھ وقت گذارنے کے نئے طریقے جانیں۔
یہ بھی پڑھیں:انٹرنیٹ کی بندش سے پریشان ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان چھوڑنے لگی
بچوں کو ہروقت مشورہ نہ دیں، اس طرح اپنے بچے کا دوسرے بچوں کے ساتھ موازنہ کرنا چھوڑ دیں,اگرچہ والدین کا بچوں کے ساتھ بات چیت کا انداز بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدل گیا ہے ، لیکن خواہ کچھ بھی ہوجائے ،بچوں کے ساتھ فاصلے نہ پیدا کریں۔ ان پر اپنی مرضی مسلط کر نے کی بجائے ان کی اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کریں۔ ضرورت سے زیادہ سخت یا حد سے زیادہ دوستانہ اورنرم ہونے کی بجائے اپنے رویوں میں توازن برتیں تو، بچوں کے درمیان کی دوریاں دور ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔