سینٹ الیکشن .کسی جماعت کوکم نشستیں ملیں توذمہ دار الیکشن کمیشن ہوگا:سپریم کورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز)اوپن بیلٹ کےحوالے سےصدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ ووٹ ہمیشہ کے لئے خفیہ نہیں رہ سکتا،جس جماعت کی سینٹ میں جتنی نشستیں بنتی ہیں اتنی ہی ملنی چاہئیں اور کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کر سیٹیں جیت لے تو سسٹم تباہ ہو جائے گا۔ کسی جماعت کو کم نشستیں ملیں تو ذمہ دار الیکشن کمیشن ہوگا.
سپریم کورٹ میں سینٹ انتحابات اوپن بیلٹ سے کروانے کے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ عدالت میں پیش ہوئے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ ووٹوں کو خفیہ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے، کاسٹ کئے گئے ووٹ کبھی کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے۔سینٹ الیکشن پر آرٹیکل 226 کا اطلاق ہوتا ہے جبکہ آرٹیکل 218 کے تحت شفاف الیکشن کرانا ذمہ داری ہے، آرٹیکل 218 کی تشریح سے 226 کو ڈی فیوز نہیں کیا جا سکتا اور آرٹیکل 226 کی سیکریسی کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ووٹ ہمیشہ کے لئے خفیہ نہیں رہ سکتا، قیامت تک ووٹ خفیہ رہنا آئین میں ہے نہ عدالتی فیصلوں میں، متناسب نمائندگی کا کیا مطلب ہے؟ قومی اسمبلی کی ووٹنگ میں آزادانہ ووٹ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، سینٹ انتخابات کے لئے قانون میں آزادانہ ووٹنگ کا لفظ شامل نہیں،سیاسی جماعت کی سینٹ میں نشستیں صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے مطابق ہونی چاہئیں، الیکشن کمیشن متناسب نمائندگی کو کیسے یقینی بنائے گا، ووٹ فروخت کرنے سے متناسب نمائندگی کے اصول کی دھجیاں اڑیں گی، کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کر سیٹیں جیت لے تو سسٹم تباہ ہو جائے گا۔جس جماعت کی سینٹ میں جتنی نشستیں بنتی ہیں اتنی ملنی چاہئیں، کسی جماعت کو کم نشستیں ملیں تو ذمہ دار الیکشن کمیشن ہوگا، صوبائی اسمبلی کے تناسب سے سینٹ سیٹیں نہ ملیں تو یہ الیکشن کمیشن کی ناکامی ہوگی.
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی جماعت تناسب سے زیادہ سینٹ سیٹیں لے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا، الیکشن کمیشن کیسے تعین کرتا ہے کہ انتخابات متناسب نمائندگی سے ہوئے۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے نہیں روک سکتے، آزادانہ ووٹ نہ دیا تو سینٹ انتخابات الیکشن نہیں سلیکشن ہوں گے، ووٹ دیکھنے کے لئے آرٹیکل 226 میں ترمیم کرنا ہوں گی، ووٹ تاقیامت ہی خفیہ رہتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے وکیل کو کل عدالت میں ہونا چاہیے کیس کسی بھی وقت ختم ہو جائے گا، پاکستان بار کو صرف عدلیہ کی آزادی اور آئین کی بالادستی پر سنیں گے، پاکستان بار کونسل کی کوئی سیاسی بات نہیں سنی جائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا متناسب نمائندگی نہ ہونے سے سینٹ الیکشن کالعدم ہوجائیں گے، ووٹنگ بے شک خفیہ ہو لیکن سیٹیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی بنتی ہیں، پیسے دینے والوں کے پاس بھی کوئی سسٹم تو ہوتا ہے کہ بکنے والا ووٹ دے گا یا نہیں، الیکشن کمیشن کو معلوم ہے لیکن ہمیں بتا نہیں رہا، ووٹ خریدنے والے ووٹ ملنے کو کیسے یقینی بناتے ہیں، ملک کی قسمت الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری کو سمجھے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ ووٹ چوری نہیں ہونے دینا، الیکشن کمیشن کہتا ہے چوری ہونے کے بعد کارروائی کرینگے، سیاسی جماعتوں کو تناسب سے کم سیٹیں ملیں تو قانون سازی کیسے ہوگی، منشیات اور دو نمبر کی کمائی ووٹوں کی خریداری میں استعمال ہوتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو نیند سے جاگنا ہوگا، تمام ریاستی ادارے الیکشن کمیشن کی بات کے پابند ہیں، بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ یا سیریل نمبر لکھا جا سکتا ہے، کاوئنٹر فائل اور بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ ہو تو ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوگی۔
ایڈوکیٹ جنرل کے پی کے شمائل بٹ نے دلائل دئیے کہ ارکان اسمبلی اپنی مرضی سے سینٹ الیکشن میں ووٹ نہیں دے سکتے، متناسب نمائندگی کا مطلب صوبائی اسمبلی کی سینٹ میں عددی نمائندگی ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اگر متناسب نمائندگی ہی ہے تو الیکشن کی کیا ضرورت ہے۔ دوران سماعت ایڈوکیٹ جنرل کے پی کے دلائل مکمل ہوگئے۔عدالت نے کیس کی سماعت کل بارہ بجے تک ملتوی کردی۔ کل دیگر صوبوں اور سیاسی جماعتوں کے دلائل سنے جائیں گے۔