جب مجھے ہوش آیا تو میرے سامنے پورا خاندان کھڑا تھا اور سب رو رہے تھے ایسا لگا جیسا مجھے نئی زندگی ملی ہو میری آنکھ کھلتے ہی سب نے پھیکی مسکراہٹ دی مگر میں اپنا بچہ پکارتی رہی اور جب مجھے پتا چلا کہ وہ بھی نہ رہا تو لمحے دوبارہ ساکن ہو گئے تھے ۔ ایسا کہنا ہے ملتان کے علاقے بستی خداداد سے تعلق رکھنے والی سعدیہ کا ، سعدیہ 14 سال کی تھی جب اس کی شادی اس کے چونتیس سالہ خالہ زاد سے ہوئی۔ وہ اس وقت خداداد بستی کے ایک سکول میں آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی۔
شادی کے وقت سعدیہ کو اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی اور اپنے میاں کے گھر سدھاری۔ وہ کہتی ہیں میں اتنی کمسن تھی کہ شادی شدہ زندگی کے معاملات کو سمجھنا میرے لیے ناممکن تھا۔ بدقسمتی سے میرے شوہر نے مجھے مارنا پیٹنا شروع کر دیا تھا ،گھریلو تشدد کا شکار سعدیہ کو بالآخر میکے واپس آنا ہی پڑا کیونکہ اس کے 2 حمل عین وقت پر ضائع ہو گئے تھے ، کیونکہ حمل کے دوران نہ تو اسے اچھی خوراک ملی، نہ ہی اچھی دیکھ بھال۔ وہ خودبھی اتنی سمجھدار اور بالغ نہیں تھی کہ اپنا مناسب خیال رکھ سکتی۔ نتیجتاً ماں نہ بن پانے کہ باعث کچھ عرصے بعد ہی سعدیہ کے شوہر نے اسے طلاق دے دی ، اب سعدیہ 22 سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ اس کی تعلیم ادھوری چھوٹ جانے کی وجہ سے وہ کوئی اچھی نوکری بھی نہیں کر پا رہی ، وہ گھروں میں کام کر کے اپنے والدین کا بازو بنی ہوئی ہے جسکی بنیادی وجہ غربت ہے ،سعدیہ اپنی کمسن عمر میں شادی ہونے کی ذمہ دار اپنے والدین اور غربت کو ٹھہراتی ہے ، وہ کہتی ہے کہ اس کے چچازاد کزن بیرون ملک کام کرتے تھے اور زیادہ رئیس تھے ، اسی لیے میری شادی میں کوئی رضا مندی نہیں تھی صرف والدین کے کہنے پر مجبور اًمجھے اس بندھن میں بندھنا پڑا۔
وہ کہتی ہے حمل کے ضیاع اور کمسن عمر میں شادی کے باعث اب میری طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ بچے کی پیدائش نہ ہونے کے باوجود بھی میری کمر اور ٹانگوں میں سخت درد کی وجہ سے میں ٹھیک طرح سے چل پھر نہیں سکتی ، گھر کے کام کاج کے ساتھ باہر کوٹھیوں پر کام کرنا بھی میرے لیے مشکل ہو چکا ہے وہ کہتی ہے میں سمجھتی ہوں شاید 22 برس کی عمر میں بڑھاپے کی زندگی گزار رہی ہوں ، والدین کا خیال تو دور کی بات میرے لیے اپنا خیال رکھنا مشکل ہو گیا ہے ،شہر ملتان میں اس بے بسی کا شکار صرف سعدیہ ہی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب سمیت پاکستان بھر میں بیشتر خواتین کمسنی میں ہو جانے والی شادیوں کی وجہ سے روزانہ زندگی اور موت کی کشمکش میں وقت گزار رہی ہیں۔
کمسن بچیوں کے حوالے سے مقامی تنظیم دستگیر فورم کی بانی آپا زہرہ سجاد زیدی کہتی ہیں کہ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 18-2017 کے مطابق 3.6 فیصد بچیوں کی شادی پندرہ سال سے کم عمر میں ہوئی جبکہ18.3 فیصد بچیوں کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں ہوئی۔ وہ کہتی ہیں بچپن کی شادیوں کے تباہ کُن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ جنسی زیادتی کی ایک شکل ہے جس میں بچی پر حملہ ہوتا ہے اور اس کا بچپن چھن جاتا ہے۔ یہ بچی کی نفسیاتی بہبود ،فکری، ذاتی اور سماجی نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔ دوسری لڑکیوں کے مقابلے میں شادی کرنے والی لڑکیوں کے سکول چھوڑنے کا امکان بھی زیادہ ہیں ۔
وہ کہتی ہیں پاکستان کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ 2019 کے انہی کی تنظیم دستگیر فورم کی جانب سے کیے جانے والے سروے کے مطابق ملک میں اکیس فیصد لڑکیوں کی شادیاں اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہیں جبکہ تیرہ فیصد بچیاں تو اپنی عمر کے چودہویں سال میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔ 2020 میں وومن رائٹس ایسوسی ایشن پاکستان کے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 16 سال سے کم عمر میں شادی کرائے جانے والے بچوں کی تعداد 7.3 ملین (% 6.0 ) اور 18 سال سے کم عمر میں شادی کرائے جانے والے بچوں کی تعداد 15.5 ملین (% 12.6 ) ہے۔
بانی وومن رائٹس ایسوسی ایشن جنوبی پنجاب شائستہ بخاری کہتی ہیں پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کی ظالمانہ وجہ معاشرے کے فرسودہ رسم و رواج ہیں۔ وہ کہتی ہیں ملتان کے گردونواح میں شمار ہونے والے راواں ، سلار بند ، بند بوسن ، بستی خدادا ، قاسم پور ، قاسم بیلہ اور شیرشاہ جیسے علاقوں میں کم عمری شادی کا رجحان زیادہ ہے ۔
شائستہ بخاری کہتی ہیں ان علاقوں میں موجود لوگ اپنی فرسودہ رسومات کو بدلنا نہیں چاہتے ، جسکی انہوں نے خود بھی کوشش کی تو انہین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ کوئی انکی بات ان علاقوں میں کوئی سننے کو تیار ہی نہیں تھا ، ان علاقے میں مکین خواتین تک پہنچنے کے لیے پہلے وہ مردوں کو مطمئن کرتی تھی جس میں بیشتر وہ مایوس ہو جاتی تھیں ، وہ کہتی ہیں ان علقوں کے مکین سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی فرسودہ رسومات پر بات کرنا شاید انکے اقدار کے خلاف ہے ،وہ کہتی ہیں صرف ان علاقوں کی ترقی ہی انکی زہنی آبیاری مین مثبت کردار ادا کر سکتی ہے جسکے لیے نان گورئمنٹ اداروں کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں کو بھی اپنی زمہ داریاں ادا کرنا ہونگی ۔
جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ مولانا حنیف جالندھری کہتے ہیں کہ اکثر اوقات کم عمر لڑکیوں کو شادی پر مجبور کیا جاتا ہے اور اسلام میں لڑکی کو ایسے کسی شخص سے شادی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جس سے لڑکی شادی نہ کرنا چاہتی ہو، اور فقہائے کرام کے راجح موقف کے مطابق چاہے وہ لڑکی کنواری ہی کیوں نہ ، یہی موقف احناف کا بھى ہے؛ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: (کنواری لڑکی کی شادی اس وقت تک نہ کی جائے جب تک اس سے اجازت نہ لے لی جائے) مسلم: (1419)
مولانا حنیف جالندھری کہتے ہیں شادی اسلام میں ایک معاہدہ ہے اور قرآن کی سورہ النساء کی آیت 21 میں شادی سے مراد میثاق ہے، یعنی شوہر اور بیوی کے درمیان ایک پختہ عہد یا معاہدہ، اور حکم دیا گیا ہے کہ اسے تحریری طور پر درج کیا جائے۔ چونکہ فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اس پر اپنی آزادانہ رضامندی نہ دیں۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایسا معاہدہ بچوں کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا۔ جب بچے سے گاڑی چلانے اوریا ووٹ دینے کی توقع نہیں کی جاتی ہے تو اس سے زندگی بھر کے معاہدے میں جانے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ شادی ایک تاحیات معاہدہ ہے اور جو بچہ یہ بھی نہیں سمجھتا ہے کہ معاہدہ کیا ہے اس سے جیون ساتھی کا انتخاب کی توقع بے فیض ہے ۔ اسی لیے اس حقیقت کی بنیاد پر بچپن کی شادی بالکل اسلامی نہیں ہو سکتی۔
ایڈوکیٹ ثمرہ بلوچ گزشتہ 5 سال سے ملتان کی عدالتوں میں کمسن بچیوں کے حقوق کے حوالے سے جنگ لڑ رہی ہیں وہ کہتی ہیں پی پی سی کے سیکشن 310۔ اے کے مطابق ”جو کوئی بھی کسی عورت کو نکاح میں دے یا بصورت دیگر اسے شادی میں داخل ہونے پر مجبور کرے جیسا کہ بدلہ صلح، ونی یا سوارہ یا کسی بھی نام سے کوئی دوسری رسم یا رواج، دیوانی تنازعہ یا فوجداری ذمہ داری کے تصفیہ کے پیش نظر، تو اسے سات سال تک کہ قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے جو کہ تین سال سے کم نہیں ہوگی اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا کا بھی حقدار ہو گا۔ثمرہ بلوچ کہتی ہیں اسی طرح نکاح خواں اور سرپرست کو بھی دو بچوں یا ایک بالغ فرد اور بچے کی شادی کرانے کے جرم میں اسی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جسٹریٹ آف فرسٹ کلاس کے علاوہ کوئی بھی عدالت اس ایکٹ کے تحت کسی جرم کا نوٹس نہیں لے سکتی اور نہ ہی اس کی کوشش کر سکتی ہے۔ تاہم شکایت درج کروانے کی مدت ایک سال مقرر کی گئی ہے۔ اور جب تک کہ، پنجاب کے علاوہ، کسی یونین کونسل کی طرف سے شکایت نہ کی جائے جس کے دائرہ اختیار میں بچوں کی شادی ہو رہی ہے یا ہونے والی ہے تو کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ وہ کہتی ہیں اگر اس علاقے میں ایسی کوئی یونین کونسل نہیں ہے تو صوبائی حکومت اس سلسلے میں مذکرہ بالا اختیار کسی ایک شخص کو بھی دے سکتی ہے۔۔ کیونکہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ (سی ایم آر اے ) 1929 کے سیکشن 4 کے مطابق شادی کے لیے لڑکی کی عمر کی کم از کم حد 16 سال اور لڑکے کی عمر کی حد سال 18 ہے ، وہ کہتی ہیں گزشتہ ایک سال کے دوران کمسن شادیوں کے ملتان ڈسٹرکٹ فیملی کورٹ میں 20 سے زائد کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے 15 کے قریب افراد کو جرمانے اور سزائین سنائیں گئی ۔
کمسن بچیوں کی شادی کے نتائج
معروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر ماریہ ممتاز کہتی ہیں کہ ان کے پاس جو کیسز آتے ہیں ان میں کمسن بچیاں مانع حمل کے طریقوں کے بارے میں غیر آگاہی کی وجہ سے کئی جنسی بیماریوں اور دیگر شدید انفیکشن کا شکار چکی ہیں جو اکثر زچہ اور بچہ دونوں کی اموات کا سبب بنتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کمسن شادی کے باعث انکے بچہ معذور پیدا ہوتے ہیں ۔ کمسن عمری کی شادی کے باعث فسٹولا سرطان اور اندرونی انفیکشن بھی ایسی لڑکیوں کی زچگی کے دوران اموات کی بڑی وجوہات ہیں، وہ کہتی ہیں کمسن بچیوں کا علاج کرتے ہوئے میں اکثر سوچتی ہوں کہ ان کے والدین ان کی شادیاں کرنے سے پہلے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ایسی شادیاں شادی نہیں بربادی ثابت ہو گی ۔ ۔ بار بار اسقاط حمل یا بچے پیدا کرنے سے ایسی لڑکیاں خون کی کمی کا شکار بھی ہو جاتی ہیں، جو آخر کار ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہے ۔
وائلینس اگینسٹ وومن سنٹر کی انچارج منزہ بٹ کہتی ہیں کہ سال 2022 جنوری سے دسمبر تک وومن سنٹر ملتان میں کمسن بچیوں کی شادی کے 43 مقدمات رپورٹ ہوئے ۔وہ کہتی ہیں کہ یہ تعداد حقیقی تعداد سے کہیں کم ہے کیونکہ بیشتر لوگ اس معاملے پر چپ سادھ لیتے ہیں اور رپورٹ نہیں کرتے ، ایسے ہی لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے یے حکومتی ادارہ فعال ہے جو اپنی طرف سے ایسی کمسن بچیوں کو فری وکیل بھی فراہم کرتا ہے اور انکے کیسز لڑتا ہے ، وہ کہتی ہیں وائلنس اگینسٹ وومن اینڈ چلڈرن ملتان کے پلیٹ فارم سے اب تک 16 سے زائد کیسز کا فیصلہ کم عمر لڑکیوں کے حق میں ہوا اور انکے والدین سمیت شوہروں اور نکاح خواں کو بھی جرمانے عائد ہوئے، وہ کہتے ہیں انکا ادارہ مکمل طور پر ایسی خواتین کے لیے فری سہولیات فراہم کر رہا ہے
بانی وومن رائٹس ایسوسی ایشن شائستہ بخاری کہتی ہیں قومی کمیشن برائے حقوقِ اطفال اور انسانی حقوق کے دیگر قومی اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کمسن عمری کی شادیوں ا نوٹس لیں اور
پالیسی سفارشات مرتب کریں ۔ وہ کہتی ہیں بچپن کی شادیوں سے نمٹنے کے لئے ہر بچے کے لئے پیدائش کا اندراج اور تعلیم کا حصول ضروری ہے۔ ایسے امدادی پروگراموں کا نفاذ ہونا چاہیے جو خطرے میں گھِری لڑکیوں کو با اختیار بنائیں۔اور انھیں شادی کے بندھن میں بندھنے کی بجائے سکول بھیجا جائے۔ اس سے نسلوں کوصحتمند اورذمہ دارجبکہ ملک کو خوشحال بنانے میں مدد ملے گی۔