(24 نیوز)سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ سپریم کورٹ ایسےشخص کاکیس کیوں سن رہی ہےجو پارلیمنٹ سےباہر ہے؟ عمران خان پارلیمنٹ کی بحث کا حصہ بننا چاہتےہیں نہ ہی اس کوفیصلوں کو مانتےہیں عدالت کیوں اس شخص کے کیس کافیصلہ کرےجو خود پارلیمنٹ کا حصہ بننا نہیں چاہتا؟ایک شخص کے فیصلوں سے پورا سسٹم منجمد ہو رہا ہے۔
نیب آرڈیننس میں ترامیم کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کا پارلیمنٹ واپس جانےکامعاملہ بھی زیر بحث آگیا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عبا بندیال کی سربراہی یں سپریم کورٹ کے بینچ نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔
ضرور پڑھیں :کے پی اسمبلی آج ہی توڑنے کا اعلان
دوران سماعت تحریک انصاف کا پارلیمنٹ واپس جانےکامعاملہ سپریم کورٹ میں زیربحث آیا۔دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ایک شخص کے فیصلوں کی وجہ سے پورا سسٹم منجمد ہورہا ہے سپریم کورٹ ایسے شخص کاکیس کیوں سن رہی ہے جو پارلیمنٹ سے باہر ہے؟ عمران خان پارلیمنٹ کاحصہ بننا چاہتے ہیں ناہی اس کے فیصلے مانتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ عدالت کیوں اس کیس کا فیصلہ کرے جو شخص پارلیمنٹ کا حصہ بننا نہیں چاہتا؟ جہاں درخواست گزار موجود ہی نہیں تھےکیا وہ کارروائی چیلنج کرسکتے ہیں؟۔حکومتی وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ دیکھنا اہم ہے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں یا نہیں، کہا جاتا ہے ایک وزیر نے پاکستان آ کر حلف اٹھا لیا، وزیر کے نیب کیسز عدالت میں پیش ہونے سے ختم ہوئے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ ماضی میں ایک شخص نیب کیسز ختم کرنے کی شرط پر ہی وزیر خزانہ بنے، ترامیم سے پی ٹی آئی رہنماؤں کو ریلیف ملا لیکن اسے کسی نے چیلنج نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ اخبارات میں خبریں چھپی ہیں پی ٹی آئی پارلیمنٹ واپس جا رہی ہے، اگر پی ٹی آئی پارلیمنٹ واپس آتی ہے تو کیا حکومت ان کے ساتھ مل بیٹھے گی؟ کیا ہم نیب ترامیم کا معاملہ واپس پارلیمنٹ بھیج دیں؟۔جواب میں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی نے کہا کہ ہدایات لیے بغیر عدالت میں کوئی بات نہیں کر سکتا، پارلیمانی نظام میں تمام طریقہ کار واضح اور طے شدہ ہے، پی ٹی آئی چاہے تو پارلیمنٹ جا کر نیب قانون کا ترمیمی بل پیش کر سکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں ہی احتساب کا موثر قانون چاہتے ہوں گے، حکومت اور پی ٹی آئی مل کر بہترین قانون بنا سکتے ہیں۔ نیب ترامیم کے معاملے میں قومی اور ملکی مفاد کو سامنے رکھا جانا چاہیے، قانون سازی اکثریتی رائے کے بجائے اتفاق رائے سے ہونی چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی والے پارلیمنٹ میں کیوں نہیں جا رہے؟خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی فیصلے کے تحت اسمبلی سے باہر آئی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں عمران خان کا کیس 184 تھری کے زمرے میں آتا ہے، اتنا کہہ دیں کہ ترامیم کے ماضی سے اطلاق کے حوالے سے قانون واضح ہے، ترامیم کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا تو 90 فیصد کیس ختم ہوجائے گا۔
جستس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کئی مرتبہ آبزرویشن دے چکی کہ نیب ترامیم کیس پارلیمان میں حل ہونا چاہیے، مخدوم علی خان کو اسی لیے ہدایات لینے کا کہا ہے، توقع ہے حکومت کھلے ذہن کیساتھ معاملے کا جائزہ لے گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا مناسب نہیں ہوگا پی ٹی آئی اسمبلی میں ترمیمی بل لائے جس پر بحث ہو؟ بحث سے ممکن ہے کوئی اچھی چیز سامنے آجائے، اگر پارلیمان سے مسئلہ حل نہ ہو تو عمران خان عدالت آسکتے ہیں۔