(24نیوز)جولائی 2018 میں پاکستان نے ترک ساختہ 30 ٹی 129 اٹک ہیلی کاپٹر خریدنے کے لیے 1.5 ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان نے ترکی کے ساتھ ہیلی کاپٹر کے معاہدے میں دوبارہ توسیع کرتے ہوئے ہیلی کاپٹرز کی فراہمی کے لیے انقرہ کو مزید 6 ماہ کی مہلت دے دی۔میڈیا کی رپورٹ کے مطابق جولائی 2018 میں پاکستان نے ترک ساختہ 30 ٹی 129 اٹک ہیلی کاپٹر خریدنے کے لیے 1.5 ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
پینٹاگون کے انجنز اور امریکا میں تیار کردہ دیگر پرزوں کے برآمدی لائسنس جاری کرنے سے انکار کی وجہ سے اس کی فراہمی کی تاریخ میں توسیع کی گئی۔ترکی کے اعلیٰ عہدیدار اسمٰعیل دمیر نے بتایا کہ 'ہم نے پاکستان سے 6 ماہ کی توسیع حاصل کرلی ہے'۔جنوری 2020 میں پاکستان نے ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کے لیے مینوفیکچررز، ترک ایرو اسپیس انڈسٹریز (ٹی اے آئی) کو پہلے ایک سال کی توسیع دی تاہم بعد میں فروخت کے خطرے کے پیش نظر ترک حکومت نے ٹی اے آئی کی دوسری کمپنی ٹوساس انجن انڈسٹریز کو ٹی 129 کے لیے دیسی انجن تیار کرنے کا کام سونپا۔انہوں نے بتایا ہے کہ مذکورہ معاملے میں امریکی اعتراض کی بنیادی وجہ واشنگٹن کی جانب سے روسی ساختہ ایس -400 ٹرومف فضائی دفاعی نظام خریدنے کے انقرہ کے فیصلے کی مخالفت ہے۔
ترکی میں ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ اس توسیع کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاہدہ عمل میں آجائے گا۔انہوں نے کہا کہ 'یہ کوئی تکنیکی یا تجارتی مسئلہ نہیں ہے، یہ مکمل طور پر سیاسی ہے اور جب تک امریکا کی رکاوٹ کی وجوہات برقرار ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ترکی-پاکستان کے معاہدہ امریکا کے تنازع سے متاثر ہوگا'۔پاکستان نے 1980 کے عشرے میں حاصل کیے گئے کوبرا گن شپ کے اپنے بیڑے کو تبدیل کرنے کے لیے ترکی کے ٹی 192 اٹیک ہیلی کاپٹرز کا انتخاب کیا تھا۔تاہم ہیلی کاپٹر بنانے والی ترک ایرو اسپیس انڈسٹریز کو ترسیل ہونے سے قبل امریکی برآمدی لائسنس حاصل کرنا ہوگا۔
5 ٹن کا ٹی 129 دو انجنز کا ملٹی رول اٹیک ہیلی کاپٹر ہے جو اطالوی-برطانوی کمپنی اگسٹا ویسٹ لینڈ کے لائسنس کے تحت تیار کیا گیا ہے اور اے 129 منگستا پر مبنی ہے۔
اس میں دو ایل ایچ ٹی ای سی 800-4 اے ٹربو شافٹ انجن لگے ہیں، جو امریکی کمپنی ہنی ویل اور برطانوی کمپنی رولس رائس مشترکہ طور پر تیار کرتی ہے۔ترکی کے ایک ایرو اسپیس عہدیدار نےبتایا کہ رکاوٹ صرف یہی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ 'دوسرے ایسے عوامل موجود ہیں جن کی وجہ سے امریکا برآمدی لائسنس جاری کرنے سے انکار کرسکتا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں یہ لگتا ہے کہ ٹی 129 معاہدہ واشنگٹن سے سیاسی اجازت نامے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا'۔امریکی قانون سازوں نے حال ہی میں نیٹو کے اتحادی کو امریکی ہتھیاروں کی تمام فروخت روک دی ہے تاکہ انقرہ پر روسی ساختہ ایس -400 ترک کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ امریکی قانون سازوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ ہیلی کاپٹروں کے انجن بھارت کے خلاف پاکستان کی زمینی حملے کی صلاحیت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔