(24نیوز)وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی براہ راست کوریج کی مخالفت کردی جبکہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ نے جسٹس بندیال سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج میرا ٹرائل ہو رہا ہے، کل آپ بھی میری جگہ ہوسکتے ہیں، صرف میری ہی نہیں، باقی تمام ججز کی بھی فائلیں تیار ہیں۔
بدھ کو سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل 6 رکنی بینچ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس عیسیٰ کی درخواست پر دئیے گئے عدالتی فیصلے کے خلاف جسٹس عیسیٰ، ان کی اہلیہ و دیگر کی نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ کمرہ عدالت میں آئے۔
دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر رحمن نے کہا کہ عدالتی کارروائی تکنیکی نوعیت کی ہوتی ہے اور ججز کے سوالات سے عام آدمی سمجھنے کی بجائے کنفوژہوگا۔انہوں نے کہا کہ ججز کے کنڈکٹ پر پارلیمنٹ میں بھی بحث نہیں ہوسکتی اس لیے براہ راست کوریج سے عدالتی وقار میں بھی کمی آئے گی۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بھارتی سپریم کورٹ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کا حوالہ دیا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی عوام تک پہنچانے کے لیے میڈیا موجود ہے اور میڈیا نمائندگان آسان زبان میں عدالتی کارروائی عوام تک پہنچاتے ہیں، اس لیے میڈیا کے ہوتے ہوئے براہ راست کارروائی دکھانے کا کوئی جواز نہیں۔
عامر رحمن نے کہا کہ ججز کو کمرہ عدالت میں خصوصی اختیارات حاصل ہوتے ہیں، کیس کی کارروائی براہ راست دکھانے کی درخواست مسترد کی جائے۔انہوںنے کہاکہ خدشہ ہے براہ راست کوریج سے فیصلے قانون نہیں مقبولیت پر مبنی ہوں گے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل مضبوط ہیں، ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے دلائل میں کہا کہ میرے شوہر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو ان کی مدد کرتی تھی اور پہلے کبھی تصویر نہیں بنی، لیکن اب عدالت آتے جاتے میری ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق سرینا عیسیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر قانون نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور جسٹس قاضی فائز عیسی کو راستے سے ہٹانے کے لیے غیر قانونی اقدامات کیے جبکہ میرے ساتھ حکومتی عہدیداروں کا رویہ تضحیک آمیز ہے۔انہوں نے کہا کہ اپنی رقم سے خریدی جائیداد راتوں رات میرے شوہر کی بنادی گئی جبکہ میں وزیر اعظم عمران خان سے زیادہ ٹیکس ادا کرتی ہوں۔
علاوہ ازیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدلیہ کے خلاف ففتھ جنریشن وار شروع کی گئی جبکہ یہ وار دشمن کے خلاف نہیں ہورہی جبکہ سوشل میڈیا برگیڈ منہ چھپا کر حملے کر رہی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق انہوں نے کہا کہ بوتھم نے عمران خان پر بال ٹیمپرنگ کا الزام لگایا تھا اور بدلے میں عمران خان نے بوتھم پر مقدمہ کیا، وہ جیت گئے لیکن موجودہ حکومت ملک کو گٹر میں لے کر جارہی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وحید ڈوگر کی شناخت کیا ہے؟ کوئی نہیں بتاتا اور پاکستان میں اس وقت ڈوگر جیسے ٹاو¿ٹ بھرے پڑے ہیں ،8 ہزار روپے پر نیب کا ملازم شہزاد اکبر عدلیہ کو لیکچر دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم احمقوں کی جنت میں نہیں رہ سکتے اور عدالت خود دیکھ سکتی ہے کارروائی کتنی رپورٹ ہوتی ہے جبکہ تاثر ہمیشہ حقیقت سے مختلف ہوتا ہے۔دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے تحریری دلائل کا جائزہ لیا ہے، تمام دلائل اوپن کورٹ میں سماعت کے تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ آغا افتخار الدین مرزا نے مجھے قتل کی دھمکی دی اور جب میری اہلیہ مقدمہ درج کرانے گئی تو پولیس نے کہا وزیر داخلہ سے اجازت لیں گے اور 5 دن بعد پولیس نے مقدمہ ایف آئی اے کو بھجوا دیا۔۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے خلاف یوٹیوب پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور یوٹیوب چینل نہیں بنا سکتا اس لیے عدالت میں کھڑا ہوں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میرے نام سے تین جعلی ٹوئٹر اکاو¿نٹس بنے ہوئے ہیں جبکہ 3 مرتبہ خط لکھ چکا ہوں کہ میرا کوئی ٹوئٹر اکاو¿نٹ نہیں۔بعد ازاں عدالت نے کی سماعت کل جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔
باقی تمام ججز کی بھی فائلیں تیار ہیں: جسٹس فائز عیسیٰ
Mar 17, 2021 | 19:59:PM