(ملک اشرف) لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس علی ضیاء باجوہ نے محمود الرشید کی بیٹی اُم کلثوم کی درخواست پر سماعت کی جہاں ایس ایس پی سی آئی اے ملک لیاقت بھی پیش ہوئے۔
اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما میاں محمود الرشید کو ہتھکڑی میں عدالت پیش کیا گیا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل غلام سرور نہنگ پیش ہوئے اور درخواست گزار کی جانب سے محمد اکرم قریشی ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔
وکیل پنجاب حکومت نے اس موقع پر کہا کہ ملزم ریمانڈ پر ہے اس کیخلاف چار ایف آئی آرز اور ہیں۔
جس کے جواب میں جسٹس علی ضیاء نے کہا کہ انہوں نے قانونی تقاضا پورا کردیا جبکہ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ انہیں غیرقانونی حراست میں رکھا گیا تھا، استدعا ہے ان پر مزید مقدمات نہ بنانے کا حکم دیا جائے۔
اس پر پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ ایک مقدمہ میں نامزد ہے، تین دیگر کیسز بھی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: عدالت نے شیریں مزاری اور سینیٹر فلک ناز کو بڑا ریلیف دے دیا
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ دوسرے مقدمات میں مطلوب ہے یا نہیں جس پر جواب دیا گیا کہ ان چار مقدمات میں مطلوب ہے۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے محمود الرشید سے پوچھا کہ انہیں کب اور کہاں سے حراست میں لیا گیا جس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ڈی ایچ اے کے گھر سے اٹھایا گیا۔
محمود الرشید نے مزید کہا کہ چار روز پہلے حراست میں لے کر مختلف مقامات پر رکھا گیا، مجھ پر تشدد کیا گیا ہے۔
اس پر عدالت نے کہا کہ درخواست گزار وکیل نے تو کہا تھا کہ انہیں ایس ایس پی سی آئی اے نے اٹھایا تھا، وکیل نے جواب دیا کہ سی آئی اے والوں نے نہیں اٹھایا تھا۔
اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایس ایس پی سی آئی اے شریف آدمی کو صبح کا بلایا ہوا ہے، ان کا بلاوجہ نام لیا گیا۔
اس کے بعد جسٹس علی ضیاء باجوہ نے میاں محمود الرشید کا سروسز ہسپتال سے میڈیکل کروانے کا حکم دے کر درخواست نمٹا دی۔
اس کے بعد پولیس میاں محمو دالرشید کو لے کر سروسز ہسپتال پہنچ گئی۔