چیف جسٹس نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کرلیں

May 17, 2024 | 09:17:AM

 (امانت گشکوری) سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واڈا کی پریس کانفرنس پر لئے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سینیٹر کی پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کرلیں۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سپلیمنٹری کیس کی سماعت کررہا ہے، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان بینچ میں شامل ہیں،سماعت کے دوران چیف جسٹس نے فیصل واڈا کی پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کرلیں،اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے روبرو پیش ہوئے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے پریس کانفرنس سنی؟ توہین عدالت ہوئی یانہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے جو ویڈیو ملی ہے اس کے متعلقہ حصے میں آواز نہیں تھی، کچھ حصہ خبروں میں سنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ پریس کانفرنس توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے؟ کوئی مقدمہ اگر عدالت میں زیر التوا ہوتو اس پر رائے دی جاسکتی ہے؟ میرے خلاف اس سے زیادہ گفتگو ہوئی ہے لیکن نظرانداز کیا، میرے نظر انداز کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ ہم بھی تقریر کر لیں، لیکن کیا اپ اداروں کی توقیر کم کرنا شروع کردیں گے؟

ان کا کہنا تھا کہ وکلا ججز اور صحافیوں سب میں ا چھے برے لوگ ہوتے ہیں، برا کیا ہے تو نام لے کر مجھے کہیں ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، ہوسکتا ہے میں نے بھی اس ادارے میں 500 نقائص دیکھے ہوں،کیا ایسی باتوں سے اپ عدلیہ کا وقار کم کرنا چاہتے ہیں؟،انہوں نے مزید بتایا کہ ادارے عوام کے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں، اداروں میں کوتاہیاں ہوسکتی ہیں، میں کسی اور کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا، اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو بتائیں، تنقید کریں، ہم ہر روز ہم اچھا کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر عمل کررہے ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس کے پاس دلائل ہوں گے وہ ہم ججز کو بھی چپ کرادے گا، میں نے اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ ادارے کے لیے حلف لیا ہے،ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا چیخ پکار کرکے اپ ادارے کی خدمت کررہے ہیں؟ میں مارشل لا کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا، اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کی سزا دیگر ججز کو نہیں دی جا سکتی، بندوق اٹھانے والا سب سے کمزور ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا، دوسرے درجے کا کمزور گالی دینے والا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ ایک کمشنر نے مجھ پر الزام لگایا، بھئی بتاو تو صحیح چیف جسٹس کیسے دھاندلی کروا سکتا ہے؟ سارے میڈیا نے اسے چلا دیا، مہذب معاشروں میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا اس لیے وہاں توہین عدالت کے نوٹس نہیں ہوتے، چیخ و پکار اور ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت ہے، تعمیری تنقید ضرور کریں لیکن تنقید کی ایک حد ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ان کے بعد ایک اور صاحب آگئے جن کا نام مصطفی کمال ہے، انہوں نے بھٹو کا ذکر کیا، بھائی اگرہم نے غلط کیا ہے تو بتائیں، بھٹو کے بارے میں آپ نے کیا کیا ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو کو ہم زندہ تو نہیں کر سکتے،لیکن غلطی تو مان کی، صرف ایک کام کرنا ہے کہ ادارے کو بدنام کرنا ہے، آپ نے بڑی جدوجہد کردی تقریر کرکے، لیکن بہتری کے لیے کوئی بھی تحریری طور پر نہیں جاتا، آپ نے تقریر کرنی ہے تو پارلیمنٹ میں کریں نا، پریس کلب کیوں؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ کیا کسی صحافی نے ان سے سوال کیا کہ یہاں کیوں بول رے ہیں؟ بس ان کو سامعین چاہیے، فیصل واووڈا کے بعد مصطفٰی کمال بھی سامنے آ گئے، دونوں ہی افراد پارلیمنٹ کے ارکان ہیں ایوان میں بولتے، ایسی گفتگو کرنے کیلئے پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ پارلیمان میں بھی ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جا سکتی، ہمیں پتا ہے ہمارا انڈیکس میں نمبر 137 یا جو بھی ہے،انہوں نے ریماکرس دیے کہ باپ کے گناہ کی ذمہ داری بیٹے کو نہیں دی جاسکتی، اسی عدالت نے مارشل لا کی بھی آئینی توثیق کی ہے، اگر ایک ممبر قومی اسمبلی غلط ہے تو سارے پارلیمان کو غلط نہیں کہہ سکتے، ہمیں پتہ ہے ہماری عدلیہ کون سے نمبر پر ہے،گالیاں دینا مناسب نہیں، ہر چیز پر حملہ نہ کریں ،آپ ادارے کو تباہ کر رہے ہیں، اگر توہین عدالت کی کارروائی چلائی تو کیس میں استغاثہ کون ہو گا؟ انہوں نے بتایا کہ استغاثہ اٹارنی جنرل ہوں گے۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اب وزن اپ کے کندھوں پر ہے،کیا شوز کاز نوٹس ہونا چاہیے یا صرف نوٹس ہونا چاہیے؟ ملک کا ہر شہری عدلیہ کا حصہ ہے، جرمنی میں ہٹلر گزرا ہے وہاں آج تک کوئی رو نہیں رہا، غلطیاں ہوئیں انہیں تسلیم کر کہ آگے بڑھیں، اسکول میں بچے غطی تسلیم کرے تو استاد کا رویہ بدل جاتا ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نےفیصل واڈا اور مصطفیٰ کمال سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصل واڈا اور مصطفی کمال کو نوٹس جاری کرتے ہیں، دونوں کو بلا لیتے ہیں، ہمارے منہ پر آکر تنقید کر لیں،اس کے بعد سپریم کورٹ نے آج کی کارروائی کا حکمنامہ لکھوانا شروع کردیا،حکم نامے کے مطابق فیصل واوڈا اور مصطفی کمال اپنے بیانات کی وضاحت کریں، بادی النظر میں توہین عدالت ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ 15 مئی کو سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا، 15 روز ہوگئےجواب نہیں آیا، 19 اے کے تحت مجھے جواب دیا جائے، بابر ستار کہتے ہیں کہ جج بننے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ بھیجی، ہم نے کہا کہ اس کے حوالے سے ریکارڈ روم کے اندر کوئی چیز ہوگی تحریری طور پر لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں مل رہا۔


 


 

مزیدخبریں