(24نیوز )دنیا بھر میں لائل پور یا فیصل آباد کو شناخت دینے والا تاریخی گھنٹہ گھر 115 سال کا ہوگیا ہے اور ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اس کی شان و شوکت آج بھی بر قرار ہے اور دنیا بھر سے آنے والے کو دیکھتے وقت خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیتی ہے۔
گھنٹہ گھر کی تعمیر پر اس وقت 40ہزار روپے لاگت آئی جبکہ اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والی تاریخی اشیا کہاں کہاں سے لائی گئیں۔14نومبر1930کو برٹش گورنر لیفٹینٹ سر چارلس ریواز نے تعمیر کا آغاز کروایا۔زمیندارں اس سلسلے میں باقاعدہ ٹیکس وصول کیا گیا۔اور تمام رقم میونسپل کمیٹی کو تعمیر کیلئے دیدی۔
یہ عمارت برطانوی راج کے دور سے اپنی اصل حالت میں برقرار ہے۔ اس کی بنیاد 14 نومبر 1903 کو پنجاب کے اس وقت کے انگریز گورنر سر چارلس ریواز (Sir Charles Riwaz) نے رکھی۔ یہ آٹھ بازاروں (بھوانہ بازار،جھنگ بازار،کارخانہ بازار،کچہری بازار ‘منٹگمری بازار،ریل بازار،چنیوٹ بازار اور امین پورہ بازار) کے درمیان واقع ہے۔
ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں تعمیر کیے جانے والے فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کو بنانے کی تجویز اس وقت کے ڈپٹی کمشنر جھنگ، کیپٹن بیک نے دی تھی جبکہ اس کا ڈیزائن سر گنگا رام کی تخلیق ہے۔اس گھنٹہ گھر کی تعمیر15دسمبر 1905کو مکمل ہوئی۔
تعمیر کے وقت اس جگہ ایک کنواں واقع تھا جسے پانچ کلومیٹر دور سرگودھا روڈ پر واقع چک رام دیوالی سے لائی گئی مٹی سے اچھی طرح بھرا گیا، جس کے بعد اس کی تعمیر شروع کی گئی۔گھنٹہ گھر کی عمارت میں استعمال ہونے والا لال پتھر پچاس کلومیٹر کی دوری پر واقع سانگلہ ہل کی ایک پہاڑی سے لایا گیا تھا اور اس کے معمار گلاب خان تھے جبکہ گھڑیال ممبئی سے لائے گئے۔چارمنزلوں پر مشتمل اس عمارت کی کل اونچائی تقریباً 100فٹ ہے جبکہ اندر کی طرف ہر منزل پر پہنچنے کی لئے سیڑھیاں بنائی گئی ہیں، جو آج بھی گھڑی کو چابی دینے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔کلاک ٹاور کی چوتھی منزل پر نصب گھڑی خاص طور پر بمبئی سے لائی گئی تھی اور اس کا پینڈولم تیسری منزل میں لٹکا ہوا ہے۔
جون 2010ء میں لائل پور ٹاﺅن کی اتنظامیہ نے حفاظت کی غرض سے گھنٹہ گھر کے چاروں اطراف پتھر لگوانے کے ساتھ ساتھ اس کے جنگلے کی مرمت کروائی تاکہ اسے محفوظ رکھا جا سکے۔ شاندار ثقافت اور تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ گھنٹہ گھر نے ہردور میں اپنے دیکھنے والوں کو متاثر کیا ہے.
واضح رہے گھنٹہ گھر آٹھ بازاروں کا مرکز ہے۔اور یہ بازار فیصل آباد کے بڑے تجارتی مراکز ہیں۔جہاں تھوک کا کاروبار ہوتا ہے۔پورے پنجاب بلکہ ملک کے دیگر حصوں سے تاجر حضرات مال خریدنے آتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، فیصل آباد تک آنے والے لگ بھگ تمام ہی راستے گھنٹہ گھر پہنچ جاتے ہیں اور ہرمسافریہاں پہنچتے ہی اردگرد کی مصروف زندگی اور رونقوں میں اتنا کھو جاتا ہے کہ اپنا آپ پہچاننا بھی د±شوار پڑ جاتا ہے۔