ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی اور امریکہ کا مستقبل
اسلم اعوان
Stay tuned with 24 News HD Android App
منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی آنے والی انتظامیہ کے اہم عہدوں کو مضبوط وفاداروں سے بھر رہے ہیں، وہ ایسی ٹیم تشکیل دینا چاہتے ہیں جو اُس کے ”امریکہ فرسٹ“ ایجنڈے کی عکاسی کرے جس کی جڑیں سفید فاموں کی سپرمیسی میں ماڈرن اتھاریٹیرین رجیم کا قیام اور قومی سرمایا کو کنٹرول کرنے والی نشنل اکانومی جیسی مشترکہ ترجیحات پر مبنی ہوں یعنی باقی دنیا کے لئے تصویر واضح ہونی چاہیے ، ٹرمپ کی ” میک امریکہ گریٹ اگین“ (MAGA) تحریک اگلے چار سالوں کے لیے متذکرہ عوامل کے ساتھ امریکی خارجہ پالیسی کی وضاحت کرے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی پہلی مدت کے کسی بھی قریبی مبصر کو ان کی خارجہ پالیسی ترجیحات کے علاوہ اس عہد کے تقاضوں کے مطابق پالیسی عوامل کو بھی دیکھنا پڑے گا کیونکہ اُنکی پہلی اور دوسری مدت کی خارجہ پالیسیوں کے مابین تین اہم فرق پڑنے کا امکان موجود ہے۔ اول، ٹرمپ 2016 کے مقابلے میں زیادہ مربوط قومی سلامتی ٹیم کے ساتھ وارد ہوں گے۔ دوم ، 2025 کی دنیا 2017 کے مقابلے میں کہیں زیادہ مختلف ہے۔سوم ،اُنہیں آج کے غیر ملکی اداکاروں کو زیادہ بہتر طور پہ پڑھنا پڑے گا ۔ اپنی ابتدائی تصریحات میں انہوں نے دنیا سے جنگوں کا خاتمہ ، سماجی و اخلاقی اقدار کی بحالی اور معیشت میں بہتری کے ذریعے امریکی عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیح اول بتایا ، اگرچہ یہ چین کی طرح اپنے وجود کے اندر مرتکز ہونے کی تعمیری کوشش ہو گی لیکن مشرق وسطیٰ کے منفرد سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ٹرمپ کا عزم غیر واضح ہے، خارجہ پالیسی کے اُن تمام مسائل میں سے جو اُس کی انتخابی مہمات میں نمایاں رہے ، شاید سب سے ضروری اسرائیل کی غزہ میں حماس اور لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروپوں کے خلاف جاری جنگیں ہیں ۔
2024 کی پوری مہم کے دوران، اس نے کسی قسم کی تفصیلات پیش کیے بغیر، تشدد کے خاتمے اور خطے میں امن بحال کرنے کا عہد باندھنے کے ساتھ یہ تجویز بھی دی کہ اسرائیل کو غزہ میں ”کام ختم “ کرنے کی اجازت ملنی چاہیے جبکہ مبینہ طور پر نیتن یاہو کی حکومت پر زور دیا کہ اُنکے وائٹ ہاوس واپس آنے تک جنگ ” ختم “ ہو جانا چاہئے ۔ اس پیغام سے جنگ بندی کے لئے دباو کے برعکس اسرائیل کو اپنی جارحیت کے ساتھ مزید آگے بڑھنے کے لئے خاموش توثیق ملی ۔ مبصرین کو ٹرمپ کی پہلی مدت میں اسرائیل کے لیے واضح طور پر امتیازی حمایت سے رہنمائی ملتی ہے جب انہوں نے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے علاوہ اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کی یعنی انہوں نے ایسے اقدامات اٹھائے جن کی طرف سابق صدور، ریپبلکن یا ڈیموکریٹ ،کبھی پیش قدمی کی جسارت نہ کر سکے،ان کی یہی صلاحیت امریکہ کو بھی اندر سے بدل سکتی ہے ۔ اسی طرح ٹرمپ یوکرین جنگ ، جو سفید فاموں کی زندگیوں کو نگلنے کے علاوہ یوروپ میں معاشی عدم استحکام پیدا کرنے کا وسیلہ بنی ،کو نمٹانے کی خاطر مذاکرات میں سہولت دیکر اس بحران کو ختم کرانے میں مدد فراہم کرنے کے علاوہ نیٹو کو بھی متروک بنا سکتے ہیں ۔
اِس تناظر میں جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ امریکی استثنیٰ کا دور ختم ہو چکا ہے ۔ ٹرمپ کے تحت، امریکی خارجہ پالیسی ، انسانی حقوق، جمہوریت اور اوپن مارکیٹ اکانومی جیسے دیرینہ امریکی نظریات کو فروغ دینا بند کر دے گی ،گویا ریاست ہائے متحدہ امریکہ استبدادیت کی طرف بڑھتی ہوئی عظیم طاقت کی طرح نظر آنے والی ہے۔کھیل کے اصول اور ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کا عالمی نظریہ نہایت واضح ہے، ان کا خیال ہے، امریکہ کے تخلیق کردہ لبرل بین الاقوامی آرڈر نے وقت کے ساتھ خود امریکہ کو اندر سے کھوکھلا کر دیا،انہیں خدشہ ہے کہ اوپن مارکیٹ اکانومی اور جمہوریت کی آڑ میں تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی آبادی انقریب مملکت کے اقتدار اعلی اور قومی وسائل پہ قبضہ کرکے ریڈ انڈین کی مانند سفید فاموں کا نام نشان مٹا دے گی، اسی عدم توازن کو تبدیل کرنے کے لیے، ٹرمپ اندرونی اقتصادی بہاو جیسے درآمدات اور تارکین وطن کو آمد کو محدود کرنے کے علاوہ اتحادیوں سے اپنے دفاع کے لیے زیادہ بوجھ خود اٹھانے کا مطالبہ کریں گے ۔ ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران خارجہ پالیسی کا ٹریک ریکارڈ طے شدہ طور پر ملا جلا تھا ، ایسے بہت سے مواقع آئے جب ٹرمپ اپنی انتظامیہ کے ساتھ الجھے نظر آئے، اکثر ان کے مرکزی دھارے کی خارجہ پالیسی کے مشیروں سے اختلافات کی وجہ سے خارجہ پالیسی عدم استحکام کا شکار رہی، جس نے ٹرمپ کی اپنے مقاصد کے حصول کی صلاحیت کو کم کیا ، ٹرمپ دوسری مدت کے لیے ایسا کوئی درد سر لینا نہیں چاہتے ، گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران اس نے خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی ہم خیال ٹیم کے لئے کافی تعداد میں رجالِ کار جمع کر لئے ، اب انہیں اپنے مقربین کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنے کا امکان کم ہو گا ۔ ٹرمپ کی پالیسی پر دوسرے چیک بھی کمزور رکھے گئے ہیں، حکومت کی قانون سازی ،عدالتی شاخیں اور مقتدرہ 2017 کی نسبت”میک امریکہ گریٹ اگین“ کے ساتھ زیادہ موافق ہیں ۔ ٹرمپ نے متعدد بار اشارہ دیا وہ فوج اور بیوروکریسی کو ایسے جمود پرور افراد سے پاک کریں گے جو نظریاتی ارتقاء کی مخالفت کرتے ہیں چنانچہ اگلے چند سالوں تک خارجہ پالیسی کی فضاوں میں ٹرمپ کی آواز امریکی روح کی ترجمانی کرے گی ۔ مبصرین کہتے ہیں اگرچہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی مشینری کو کمان کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے گا لیکن دنیا میں امریکہ کا امیج بہتر بنانے کی اُنکی صلاحیت گھٹتی جائے گی ، سب سے زیادہ امریکی الجھنیں یوکرین اور غزہ میں بڑھ جانی ہیں ۔ 2024 کی انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ نے جس طرح بائیڈن کو 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے افراتفری پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ” افغانستان میں ہونے والی رسوائی نے پوری دنیا میں امریکی ساکھ کو تباہ کر دیا “ شاید یوکرائن میں بھی ایسا ہی نتیجہ ٹرمپ کے لیے سیاسی رسوائی کا سبب بنے ۔ غزہ میں، ٹرمپ نے نیتن یاہو پر زور دیا کہ وہ ”کام ختم کریں“ یعنی حماس کو تباہ کر دیں ۔ اس کام کو پورا کرنے کے لیے نیتن یاہو کے اسٹریٹجک وژن کی کمی یہ بتاتی ہے کہ اسرائیل جنگ جاری رکھے گا جو دنیا میں بہت سے ممکنہ امریکی شراکت داروں کو الگ کر دے گی ۔
ضرورپڑھیں:جناب جسٹس شاہد کریم صاحب ،ہمیں قاتل درخت سے بچالیں
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کو ان تنازعات سے امریکہ کو نکالنا زیادہ مشکل ہو گا جتنا اس نے انتخابی مہم کے دوران دعویٰ کیا کیونکہ گیم کے عالمی قوانین 2017 کے بعد سے بدل چکے ہیں دیگر عظیم طاقتیں امریکہ سے آزاد اپنے اپنے ڈھانچے بنا کر انہیں تقویت دینے میں کافی آگے نکل چکی ہیں جو BRICS اور OPEC سے لے کر شنگھائی تعاون تنظیم تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ ٹرمپ شاید ان میں سے کچھ گروپوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں بجائے اس کے کہ ان کے لیے زبردست متبادل پیدا کریں، ایسے گروہوں کو تقسیم کرنے کی ان کی بیان کردہ کوششیں ممکنہ طور پر ناکام ہوں گی ۔کولمبیا کی پروفیسر الزبتھ سانڈرز نے حال ہی میں مشاہدہ کیا کہ،2016کے انتخابات میں، ٹرمپ کی خارجہ پالیسی پراسرار تھی تاہم اب 2024 میں ٹرمپ کے اقدامات کی پیش گوئی کرنا آسان ہے۔ اب تک بڑی طاقتیں اور چھوٹی ریاستیں دونوں جانتی ہیں کہ ٹرمپ کے ساتھ نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کے سامنے حقائق کی جانچ کرنے سے گریز کریں، چمکیلی مگر علامتی مراعات دیکر اُس کے شر سے محفوظ رہیں ۔ کیا ان سب کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ پہلی اور دوسری مدت میں ایک جیسا ہی ہوگا ؟ ہرگز نہیں۔ ٹرمپ کا دوبارہ انتخاب امریکی خارجہ پالیسی میں دو رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے جن کو تبدیل کرنا مشکل ہے ۔ پہلی ناگزیر بدعنوانی جو امریکی پالیسیوں پہ سمجھوتہ کرے گی ۔ پچھلی انتظامیہ میں سابق پالیسی پرنسپلز، ہنری کسنجر سے لیکر ہلیری کلنٹن تک، نے کتابی سودوں، کلیدی تقریروں اور جغرافیائی سیاسی مشاورت کے ذریعے اپنی عوامی خدمت سے فایدہ اٹھایا ۔ تاہم، ٹرمپ کے سابق حکام نے اسے بالکل نئی سطح پر پہنچایا ، ٹرمپ کے داماد اور وائٹ ہاوس کے معاون جیرڈ کشنر جیسے مشیر اور رچرڈ گرینل، ایک سابق سفیر اور نیشنل انٹیلی جنس کے قائم مقام ڈائریکٹر، نے اپنے عہدہ چھوڑنے کے تقریباً فوراً بعد اربوں کی غیر ملکی سرمایہ کاری اور رئیل اسٹیٹ کے سودوں کو محفوظ کرنے کے لیے پالیسی سازوں کے طور پر بنائے گئے تعلقات کا فایدہ اٹھایا ۔ چنانچہ یہ حیرت کی بات نہیں ہوگی کہ مفاد پرست اگر ٹرمپ کے مشیروں کی جماعت سے ان کے دفتر میں رہنے کے بعد منافع بخش سودوں کے لئے واضح وعدوں کے ساتھ رابطہ کریں ۔ اسے متوقع کردار کے ساتھ جوڑیں جو ٹرمپ کی دوسری مدت میں ایلون مسک جیسے ارب پتی ادا کریں گے ۔
دوسرا رجحان جو ٹرمپ دوسری مدت میں امریکی استثنیٰ کا تیزی سے خاتمہ کرے گا ، ہیری ٹرومین سے جو بائیڈن تک، امریکی صدور نے اس تصور کو قبول کیا کہ امریکی اقدار و نظریات ملکی خارجہ پالیسی کا اہم ٹول بنے رہے ، جمہوریت کے فروغ اور انسانی حقوق کو آگے بڑھانے کا بیانیہ ہر بار ”قومی مفاد “کے لئے مفید ثابت ہوا ۔ دراصل، جب امریکی اقدار کی بات آتی ہے تو ٹرمپ خود ہی حقیقت پسندی کے ایک ورژن کو اپناتے ہیں۔ اپنی پہلی مدت کے شروع میں اس نے کہا ، ہمارے پاس بہت سے قاتل ہیں ، آپ کو کیا لگتا ہے ہمارا ملک اتنا معصوم ہے ؟ اس وقت، غیر ملکی سامعین یہ سمجھ سکتے تھے کہ زیادہ تر امریکیوں نے اس پر یقین نہیں کیا لیکن 2024 کے انتخابات میں امریکی عوام نے ٹرمپ کے تصور کو قبول کر لیا ۔ چنانچہ انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ نے جب میکسیکو پر بمباری اور قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا وعدہ کیا ، ڈیموکریٹ کو ”اندر سے دشمن“ کہا اور دعویٰ کیا کہ تارکین وطن ملک کے خون میں زہر گھول رہے ہیں تو امریکی عوام نے ووٹ کے ذریعے اس تصور کی توثیق کر دی ۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر