اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا تیسواں سربراہی اجلاس کامیابیاں سمیٹتے ہوئے اختتام پذیر ہوگیا، ایس سی او اجلاس کے کامیاب انعقاد پر ریاست داد کی مستحق ہے۔ چین، روس، بھارت، ایران، کرغستان، قازقستان، تاجکستان، ازبکستان اور بیلاروس کے سربراہان نے اجلاس میں شرکت کی جبکہ منگولیا جوکہ ایس سی او کی ممبرشپ میں دلچسپی رکھتا ہے بطور مبصر شریک ہوا۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے افتتاحی خطاب میں مہمانوں کو پاکستان آنے پر خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ایس سی او ممالک دنیا کی آبادی کا 40 فیصد ہیں جو مل کر خطے کی معیشت کو بہتر بنا سکتے ہیں، خطے کی عوام کے بہتر معیار زندگی اور سہولیات کیلئے معاشی ترقی، خوشحالی اور استحکام کی کوششیں مل کر کرنا ہوں گی۔ شہباز شریف نے کہا پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے، یقینی بنانا ہوگا کہ افغان سرزمین کسی ملک میں دہشتگردی کیلئے استعمال نہ ہو، عالمی برادری انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر افغانستان میں امداد پر توجہ دے۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا غربت کے خاتمے کیلئے ایس سی او ممالک کو ایک ساتھ مل کر اقدامات کرنا ہوں گے، خطے میں ٹرانسپورٹ اور توانائی کے شعبے میں تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ پرائم منسٹر نے کہا پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، علاقائی ترقی کیلئے 'بیلٹ اینڈ روڈ' منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، سی پیک کے عالمی شمال جنوبی ٹرانسپورٹ ریڈار کو پھیلایا جائے، سڑکیں، ریل اور انفراسٹرکچر کو ترقی دی جائے تاکہ علاقائی ممالک میں تعاون بڑھایا جائے۔
شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں چین، روس اور پاکستان سمیت 8 ممالک کے وزرائے اعظم، بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر، عالمی مندوبین اور رہنماؤں نے شرکت کی۔ معیشت کی بحالی اور مستحکم تجارتی تعلقات کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم کی میزبانی پاکستان کیلئے سود مند ثابت ہوئی جوکہ وقت کی ایک اہم ضرورت تھی، حکومت پاکستان کیجانب سے آنے والے معزز مہمانوں کیلئے عالمی معیار کے بہترین انتظامات دیکھنے کو ملے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں 'ایک زمین، ایک خاندان اور ایک مستقبل' کے نعرے کے تحت تجارت، معیشت، ثقافت، ماحولیات، سیکیورٹی معاملات، رکن ممالک کے درمیان باہمی تعاون اور تنظیم کے بجٹ کے علاوہ اہم تنظیمی امور پر گفتگو کی گئی۔ شنگھائی تعاون تنظیم ایک اہم پلیٹ فارم ہے، ایس سی او کے رکن ممالک ایک بہت بڑا اقتصادی بلاک ہیں جس کا پاکستان نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے تجارتی معاہدوں پر دستخط کرکہ اپنے معاشی مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ پاکستان اس سے قبل ایس سی او کے فورم پر گوڈ سیکیورٹی، موسمیاتی تبدیلی اور دہشت گردی کے شعبوں میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ پاکستان نے خطے میں رابطوں اور ماحولیاتی تبدیلی کے میدان میں کردار ادا کرکہ ایس سی او میں اپنی اہمیت ثابت کی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شرکت کی غرض سے 11 سال کی طویل مدت بعد کسی چینی وزیراعظم کے دورہ پاکستان پر چینی وزیراعظم لی چیانگ کا پرتپاک استقبال کیا گیا، وزراء اور اعلی حکام پرمشتمل ایک بڑے وفد کے ہمراہ ایس سی او اجلاس سے 1 روز قبل پاکستان آمد نے ان کے دورے کی اہمیت اور اہداف کو واضح کردیا۔ وزیراعظم لی چیانگ نے دورے کے پہلے روز ہی ایوان وزیراعظم میں استقبالیہ تقریب میں شرکت کی جہاں سیکیورٹی، تعلیم، ذراعت، مواصلات، صنعت و تجارت، انسانی وسائل کی ترقی،سائنس و ٹیکنالوجی اور کرنسی تبادلے سمیت متعدد شعبوں میں 13 مفاہمت کی یاد داشتوں اور معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ اسی دوران چینی وزیراعظم نے میاں شہباز شریف کے ہمراہ گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا ورچوئل افتتاح بھی کیا، مسٹر لی چیانگ نے پاکستان کے ساتھ سٹریٹیجک پارٹنرشپ کو مزید گہرا اور مظبوط کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ چینی وزیراعظم کے دورہ پاکستان کے دوران سی پیک فیز 2 کے تحت شروع کیے گئے منصوبوں کی تیزی سے تکمیل پر مشاورت اور اسلام آباد میں منعقدہ ایس سی او اجلاس میں شرکت سے نہ صرف چین اور پاکستان کے مفادات کو تحفظ حاصل ہوگا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔
روس کے وزیراعظم میخائل میشوستین جوکہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کی شرکت سے اسلام آباد پہنچے تھے تاہم ان کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں دو طرفہ تعلقات پر غیررسمی گفتگو بھی اہمیت کی حامل رہی، تو دوسری جانب بھارت کیجانب سے وزیرخارجہ سبرامنیم جے شنکر نے نمائندگی کی۔ پاک بھارت باہمی تعلقات میں گزشتہ 5 برس سے چلی آنے والی سرد مہری کے پیش نظر اسلام آباد میں ایس جے شنکر کی موجودگی اور ایس سی او میں شرکت کو سراہا جا رہا ہے، بھارتی وزیرخارجہ ایک ملٹی لیٹرل کانفرنس میں شرکت کیلئے آئے تھے اور پاکستانی حکام سے دوطرفہ معاملات پر ملاقات ایجنڈے میں شامل نہ تھی لیکن جے شنکر کی ایس سی او میں شرکت کو دونوں ملکوں کے تعلقات کو ایک حوصلہ افزا اور مثبت اشارہ سمجھا گیا ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ نے واپس جاتے ہوئے وزیراعظم پاکستان کا بہترین مہمان نوازی پرشکریہ ادا کیا جوکہ ایک غیر معمولی اور خوشگوار حیرت کا احساس ہے تاہم دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین اچھے تعلقات قائم ہونے سے خطے میں تجارت کو فروغ، گھٹن بھرے ماحول کو راحت اور کاروباری افراد کو بہتر سرمایہ کاری مواقع دستیاب ہوں گے۔
شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں ایس سی او کے دو اہم ترین رکن ممالک، جو دراصل اس تنظیم کے روح رواں، اقوام متحدہ میں سپر پاور اور ویٹو پاور بھی ہیں، یعنی چین اور روس کے وزرائے اعظم کی شرکت سے اجلاس کی اہمیت میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔ دو ویٹو پاور کا پاکستان میں موجود ہونا بلاشبہ نہ صرف پاکستان کی کامیاب سفارتکاری اور واضح حکمت عملی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی جانب سے جانے والا ایک سٹرونگ میسج بھی ہے جو پاکستان کے مثبت کردار اور بہتر امیج کی ترجمانی کرتا ہے کہ پاکستان خطے میں امن کا سفیر اور بین لاقوامی تعلقات کا داعی ہے۔ ملائیشین وزیراعظم داتو سری انور ابراہیم کا حالیہ دورہ پاکستان، سعودی مملکت کے وزیر سرمایہ کاری خالد بن عبدلعزیز الفالح کے دورہ پاکستان کے دوران 2.2 ارب ڈالر مالیت کے منصوبوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط اور اب کامیاب شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت، ترقی کی جانب ایک اور قدم اور پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا دیکھنے والے دشمنوں کا لگنے والی کاری ضرب ہے جو یقینا حکومت، اداروں اور پاکستانی قوم کی بڑی کامیابی ہے۔